+ -

عن عبدِ الله بن عمرو رضي الله عنهما قال:
كنتُ أكتبُ كلَّ شيءٍ أسمعُه من رسولِ الله صلَّى الله عليه وسلم أُريدُ حفْظَه، فنهتْني قريشٌ، وقالوا: أتكْتبُ كلَّ شيءٍ تَسمَعُه من رسول الله صلَّى الله عليه وسلم، ورسولُ الله صلَّى الله عليه وسلم بَشَرٌ يتكلَّمُ في الغضَبِ والرِّضا؟ فأمسَكتُ عن الكتاب، فذكرتُ ذلك لرسول الله صلَّى الله عليه وسلم، فأومأ بإصبَعِه إلى فيه، فقال: «اكتُبْ، فوالذي نفسي بيدِه، ما يَخرُجُ منه إلا حقٌّ».

[صحيح] - [رواه أبو داود] - [سنن أبي داود: 3646]
المزيــد ...

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے میں جو کچھ سنتا سب لکھ لیا کرتا تھا، تاکہ ان کو محفوظ رکھا جا سکے۔ لہذا قریش کے کچھ لوگوں نے مجھے اس سے منع کیا اور کہا کہ کیا تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہوئی ہر بات لکھ لیا کرتے ہو، جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم انسان ہیں، غصہ اور خوشی دونوں حالتوں میں گفتگو کرتے ہیں؟ لہذا میں نے لکھنا موقوف کردیا اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : "لکھا کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس سے سوائے حق کے کچھ اور نہیں نکلتا"۔

[صحیح] - [اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔] - [سنن أبي داود - 3646]

شرح

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہيں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی ہوئی ہر بات کو لکھ لیا کرتا تھا، تاکہ اسے تحریری شکل میں محفوظ رکھا جا سکے۔ لیکن قریش کے کچھ لوگوں نے مجھے اس سے منع کیا اور کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ایک انسان ہیں اور غصہ اور خوشی دونوں حالتوں میں گفتگو کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ غلطی بھی کر بیٹھیں۔ (اس لیے آپ کی ہر بات کو لکھا مت کرو۔) چنانچہ میں نے لکھنا بند کر دیا۔
پھر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ان کی اس بات کا ذکر کیا، تو آپ نے اپنے دہن مبارک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تم لکھا کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس سے ہر حال میں حق ہی نکلتا ہے۔ خوشی کی حالت میں بھی اور غصے کی حالت میں بھی۔
اللہ تعالی نے بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں فرمایا: {وَمَا یَنطِقُ عَنِ ٱلۡهَوَىٰۤ۔ إِنۡ هُوَ إِلَّا وَحۡیࣱ یُوحَىٰ} (اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں. وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے.) [سورہ نجم : 3-4]

ترجمہ: انگریزی زبان انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان ترکی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا مليالم تلگو سواحلی بورمی تھائی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية ภาษาคีร์กีซ النيبالية ภาษาโยรูบา الليتوانية الدرية الصربية الصومالية คำแปลภาษากินยาร์วันดา الرومانية التشيكية ภาษามาลากาซี اطالوی คำแปลภาษาโอโรโม ภาษากันนาดา الأوكرانية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کا پیغام پہنچانے کے معاملے میں معصوم تھے۔ خوشی کی حالت میں بھی اور غصے کی حالت میں بھی۔
  2. صحابۂ کرام سنت کی حفاظت اور اس کی تبلیغ کے حریص تھے۔
  3. کسی مصلحت کے پیش نظر، جیسے کسی بات کی تاکید کے لیے قسم کے مطالبے کے بغیر بھی قسم کھانا جائز ہے۔
  4. علم کو لکھ لینا اسے محفوظ رکھنے کا ایک اہم ترین سبب ہے۔
مزید ۔ ۔ ۔