عن عائشة رضي الله عنها مرفوعاً: أن النبيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَعُودُ بَعْضَ أهْلِهِ يَمْسَحُ بِيدِهِ اليُمْنَى، ويقول: «اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، أذْهِب البَأسَ، اشْفِ أنْتَ الشَّافِي لاَ شِفَاءَ إِلاَّ شِفاؤكَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقماً».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ بعض ازواج مطہرات کی عیادت کرتے، اپنا دایاں ہاتھ پھیر کر یوں دعا کیا کرتے تھے: ”اللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ، أذْهِب البَأسَ، اشْفِ أنْتَ الشَّافِي لاَ شِفَاءَ إِلاَّ شِفاؤكَ، شِفَاءً لاَ يُغَادِرُ سَقماً“ اے اللہ انسانوں کے پروردگار! تکلیف کو دور کر دے۔ شفایابی سے نواز کہ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفا نہیں، ایسی شفا جو کسی قسم کی بیماری نہیں چھوڑتی۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
نبی کریم ﷺ جب اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی بیمار بیوی کی عیادت کرتے تو ان کے لیے یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اور ان پر اپنا دایاں ہاتھ پھیر کر مریض پر یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ”اے اللہ جو تمام لوگوں کا پروردگار ہے“ یہاں وہ اللہ عزوجل سے اس کی ربوبیت عامہ کے وسیلہ سے دعا کر رہے ہیں۔ پس وہ رب ہے سبحانہ وتعالی، خالق ہے، مالک ہے اور تمام کاموں کی تدبیر کرنے والا ہے۔ ”تکلیف دور کردے“ یعنی اس مرض کو جو مریض کو لاحق ہے۔ ”شفا“ در اصل مرض کا ازالہ اور مریض کی خلاصی ہے۔ شافی اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ کیوں کہ وہی ہے جو مرض سے شفا دیتا ہے۔ ”اور تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں“ یعنی اللہ کی شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں۔ پس اس کی شفا کسی اور کی نہیں۔ جب کہ مخلوق کی شفا محض ایک سبب ہے۔ شافی صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے شفاۓ کاملہ کا سوال کیا یعنی ایسی شفا جس کے بعد کوئی بیماری باقی نہ رہے۔