عن أبي عبد الله ويقال أبو عبد الرحمن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم رضي الله عنه قال: سمعت رسول لله صلى الله عليه وسلم يقول: «عليك بكثرة السجود؛ فإنك لن تسجد لله سجدة إلا رَفَعَكَ الله بها دَرَجة، وحَطَّ عنك بها خَطِيئة».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...

اللہ کے رسول ﷺ کے آزاد کردہ غلام ابو عبداللہ (انھیں ابو عبدالرحمن بھی کہا جاتا ہے) ثوبان رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کثرت سے سجدے کیا کرو ۔ تم جب بھی سجدہ کرتے ہو، اللہ تعالی اس کے بدلے میں تمھارا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف کردیتے ہیں“۔
صحیح - اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

شرح

اس حدیث کا شان ورود یہ ہے کہ معدان بن طلحۃ بیان کرتے ہیں : "میں نے ثوبان رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ان سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجیے، جس کے کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی مجھے جنت میں داخل کردیں! یا پھر یہ کہا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل بتادیں۔ اس پر (حضرت ثوبان) خاموش رہے۔ انھوں نے پھر پوچھا، تب بھی وہ خاموش رہے۔ تیسری دفعہ جب پوچھا، تو انھوں نےکہا کہ میں نے جب ایسے عمل کے بارے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، توآپ نے فرمایا تھا: "سجدوں کی کثرت کیا کرو...انہوں نے پوری حدیث ذکر کی"۔ آخر میں ہے: میں ابوالدرداء رضى الله عنه سے ملا اور ان سے میں نے یہی پوچھا، تو انھوں نے بھی وہی کہا، جو ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔ آپ ﷺ کے اس فرمان ”عليك بكثرة السجودظ"c2">“ کے معنی یہ ہیں کہ کثرت سجود کو لازم پکڑ لو۔ کیوںکہ تم جب بھی سجدہ کرتے ہو، اللہ تعالی اس کی وجہ سے تمھارا ایک درجہ بلند کردیتے ہیں اور ایک گناہ معاف کردیتے ہیں۔ یہ حدیث ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ملتی جلتی ہے، جس میں آتا ہے کہ انھوں نے نبی ﷺ سے کہا کہ میں آپ سے جنت میں آپ کا ساتھ مانگتا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:پھر کثرت سجود کے ذریعے تم اپنے معاملےمیں میری مدد کرو"c2">“۔ عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ”جب بھی کوئی بندہ اللہ کے لیے سجدہ کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں، اس کا ایک گناہ مٹا دیتے ہیں اور ایک درجہ بلند کردیتے ہیں۔ چنانچہ تم سجدوں کی کثرت کیا کرو“۔ اللہ تعالی کے لیے سجدہ کرنا افضل ترین طاعت اور اللہ کے تقرب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ کیوںکہ اس میں اللہ کے لیے انتہا درجے کا تواضع اور عبودیت ہوتی ہے اور اس میں انسان کے سب سے زیادہ باشرف اور سب سے اعلی عضو یعنی اس کے چہرے کو روندی جانے والی حقیر مٹی پر رکھا جاتاہے۔ سجدے سے مراد یہاں وہ سجدے ہیں جو نماز میں آتے ہیں، نہ کہ الگ سے سجدے۔ الگ سے سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ کیوںکہ اس کی مشروعیت پر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ عبادات میں اصل ممانعت ہے۔ البتہ اس سے وہ سجدے مستثنی ہیں، جو کسی سبب کی وجہ سے ہوتے ہیں، جیسے سجدۂ تلاوت یا سجدۂ شکر۔ کیوںکہ شریعت میں ان کا ذکر ہے۔ پھر آپ ﷺ نے وضاحت کی کہ جب انسان سجدہ کرتا ہے، تو اسے کیا اجر ملتاہے اور وہ یہ ہے کہ اسے دو بہت بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ پہلا فائدۃ: اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کردیتے ہیں۔ یعنی خود اللہ کے یہاں اور لوگوں کے دلوں میں اس کی منزلت بڑھ جاتی ہے ۔ آپ جب کوئی نیک عمل کرتے ہیں، تو اس میں بھی یہی ہوتاہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالی آپ کا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں۔ دوسرا فائدۃ: اللہ تعالی اس کی وجہ سے آپ کا ایک گناہ معاف کردیتے ہیں۔ ناپسندیدہ اشیا کے زائل ہونے اور محبوب اشیا کے حصول سے انسان کو کمال حاصل ہوتاہے۔ رفع درجات کو انسان پسند کرتاہے اور گناہوں سے نفرت کرتا ہے۔ چنانچہ جب اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے، تو اسے اپنا مطلوب مل جاتاہے اور جس بات کا اسے ڈر ہوتاہے، اس سے اس کی نجات ہوجاتی ہے ۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی ویتنامی سنہالی کردی ہاؤسا پرتگالی سواحلی تمل
ترجمہ دیکھیں
مزید ۔ ۔ ۔