عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: قِيلَ لَهُ: أَلَا تَدْخُلُ عَلَى عُثْمَانَ فَتُكَلِّمَهُ؟ فَقَالَ: أَتَرَوْنَ أَنِّي لَا أُكَلِّمُهُ إِلَّا أُسْمِعُكُمْ؟ وَاللهِ لَقَدْ كَلَّمْتُهُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ، مَا دُونَ أَنْ أَفْتَتِحَ أَمْرًا لَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ فَتَحَهُ، وَلَا أَقُولُ لِأَحَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ أَمِيرًا: إِنَّهُ خَيْرُ النَّاسِ بَعْدَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«يُؤْتَى بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُلْقَى فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُ بَطْنِهِ، فَيَدُورُ بِهَا كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِالرَّحَى، فَيَجْتَمِعُ إِلَيْهِ أَهْلُ النَّارِ، فَيَقُولُونَ: يَا فُلَانُ مَا لَكَ؟ أَلَمْ تَكُنْ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ؟ فَيَقُولُ: بَلَى، قَدْ كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ، وَأَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح مسلم: 2989]
المزيــد ...
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں : ان سے کہا گیا کہ آپ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر ان سے بات کیوں نہيں کرتے؟ لہذا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ میں ان سے تمھیں سنا کر ہی بات کروں گا؟ اللہ کی قسم میں نے ان سے تنہائی میں بات کی ہے، تاکہ کسی طرح کے فساد کا دروازہ نہ کھلے۔ میں یہ بھی نہيں چاہتا کہ سب سے پہلے میں ہی فتنے کا دروازہ کھولوں۔ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ حدیث سننے کے بعد یہ بھی نہيں کہتا کہ جو شخص میرا حکمراں ہے، وہ سب لوگوں سے بہتر ہے :
"قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا، جس سے اس کے پیٹ کی انتڑیاں باہر نکل آئيں گی اور وہ ان کے ساتھ ایسے گھوم رہا ہوگا، جیسے گدھا چکی کے چاروں جانب گھومتا ہے۔ ایسے میں سارے جہنمی اس کے پاس جمع ہو جائيں گے اور کہيں گے : اے فلاں! تیرے ساتھ ایسا کیسے ہوا؟ کیا ایسا نہيں ہے کہ تو بھلائی کا حکم دیتا تھا اور برائی سے روکتا تھا؟ وہ جواب دے گا : یہ تو سچ ہے۔ مگر میں دوسروں کو بھلائی کا حکم دیتا تھا اور خود اس پر عمل پیرا نہيں ہوتا تھا۔ دوسروں کو برائی سے روکتا تھا اور خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔"
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح مسلم - 2989]
کسی نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے پوچھا : آپ عثمان بن عفان کے پاس جاکر ان سے لوگوں کے درمیان رو نما ہونے والے فتنے کے بارے میں بات کیوں نہيں کرتے اور اس آگ کو بجھانے کی کوشش کیوں نہيں کرتے؟ جواب میں انھوں نے کہا کہ انھوں نے ان سے بات تو کی ہے، لیکن رازداری کے ساتھ۔ تاکہ مصلحت حاصل ہو جائے اور کوئی فتنہ سر نہ اٹھائے۔ وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ وہ لوگوں کے سامنے کھل کر اہل حکومت کی نکیر کرنا نہيں چاہتے، تاکہ خلیفہ کے خلاف زبان درازی کی نوبت نہ آئے۔ کیوں کہ اس سے فتنے اور برائی کا دروازہ کھلے گا اور وہ نہيں چاہتے کہ یہ دروازہ سب سے پہلے ان کے ہاتھ سے کھلے۔
اس کے بعد اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ امرا کو تنہائی میں نصیحت کرتے ہيں اور کسی کی چاپلوسی نہيں کرتے کہ منہ پر ان کی غلط تعریف کریں۔ چاہے امیر ہی کیوں نہ ہو۔ یہ طرز عمل انھوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ حدیث سننے کے بعد اختیار کیا کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ جہنم کی آگ اتنی تیز ہوگی کہ گرنے کے ساتھ ہی اس کے پیٹ سے انتڑیاں نکل کر باہر آ جائيں گی۔ ایسے میں وہ شخص اپنی انتڑیوں کے ساتھ ایسے چاروں طرف گھوم رہا ہوگا، جیسے گدھا چکی کے چاروں طرف گھومتا ہے۔ یہ منظر دیکھ جہنمی اس کے اردگرد حلقہ بناکر جمع ہو جائيں گے اور اس سے پوچھیں گے کہ اے فلاں! کیا تم ہمیں بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکا نہيں کرتے تھے؟
وہ جواب دے گا : یہ سچ ہے کہ میں تمھیں بھلائی کا حکم دیتا تھا، لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ تمھیں برائی سے روکتا تھا، لیکن خود اس میں ملوث ہو جایا کرتا تھا۔