+ -

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما:
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنِ النَّذْرِ، وَقَالَ: «إِنَّهُ لَا يَأْتِي بِخَيْرٍ، وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ».

[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح مسلم: 1639]
المزيــد ...

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنما سے روایت ہے کہ
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے منت ماننے سے منع فرمایا اور کہا : "منت کوئی خیر نہیں لاتی۔ اس کے ذریعے بس کنجوس کا مال نکالا جاتا ہے۔"

[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح مسلم - 1639]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نذر ومنت ماننے سے منع فرمایا ہے۔ نذر ومنت ماننا یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر ایسی کوئی چيز واجب کرلے، جسے شارع نے اس پر واجب نہ کیا ہو۔ آپ نے آگے فرمایا کہ منت کسی چيز کو نہ آگے کرتی ہے، نہ پیچھے۔ اس کے ذریعے تو بس بخیل آدمی سے، جو بس وہی کام کرتا ہو، جو اس پر واجب ہو، خیر نکالی جاتی ہے۔ منت کوئی ایسی چيز نہيں لاتی، جو تقدیر میں نہ لکھی ہو۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تھائی پشتو آسامی السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية ภาษาคีร์กีซ النيبالية الليتوانية الدرية الصومالية الرومانية ภาษามาลากาซี คำแปลภาษาโอโรโม
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. منت ماننا مشروع نہيں ہے۔ لیکن جب کوئی شخص منت مان لے اور وہ گناہ پر مشتمل نہ ہو، تو اسے پورا کرنا واجب ہوگا۔
  2. منت ماننے سے ممانعت کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ منت کوئی خیر نہيں لاتی۔ یعنی اللہ کے کسی فیصلے کو بدلتی نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ کہ منت ماننے والا یہ نہ سمجھے کہ اس کی مراد منت کی وجہ سے ہی پوری ہوئی بلکہ اللہ تعالی اس سے بے نیاز ہے۔
  3. قرطبی کہتے ہيں : اس ممانعت کا محل یہ ہے کہ مثلا کوئی شخص کہے : اگر اللہ نے میرے مریض کو شفا دے دی، تو میں اتنا صدقہ کروں گا۔ کراہت کی وجہ یہ ہے کہ جب اس نے مذکورہ عبادت کی انجام دہی کو مذکورہ غرض کے پورا ہونے پر موقوف قرار دے دیا، تو واضح ہو گیا کہ اس عبادت کی انجام دہی میں اللہ کی خالص رضا جوئی کارفرما نہيں ہوگی، بلکہ معاوضہ کی روش اپنائی جائے گی۔ یہ بات اس سے اور واضح ہو جاتی ہے کہ اگر اللہ نے اس کے مریض کو شفا نہيں دی، تو وہ شفا کے ساتھ معلق صدقہ نہيں کرے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہی حالت بخیل کی ہوا کرتی ہے۔ کیوں کہ وہ اپنا مال کسی ایسی چیز کے عوض میں ہی نکالتا ہے، جو جلد حاصل ہو اوراکثر یہی ہوتا ہے کہ عوض نکالی ہوئی چيز سے زیادہ ہو۔
مزید ۔ ۔ ۔