عن عقبة بن عامر رضي الله عنه ، قال: كانت علينا رعاية الإبل فجاءت نَوبتي فرَوَّحْتُها بعَشِيٍّ فأدركتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما يُحدث الناس فأدركت ُمن قوله: «ما من مسلم يتوضأ فيُحسن وُضُوءه، ثم يقوم فيصلي ركعتين، مقبل عليهما بقلبه ووجهه، إلا وجَبَتْ له الجنة»، قال فقلت: ما أجود هذه فإذا قائل بين يدي يقول: التي قبلها أجود فنظرتُ فإذا عمر قال: إني قد رأيتك جئت آنفا، قال: «ما منكم من أحد يتوضأ فيبلغ -أو فيُسبِغُ- الوضوء ثم يقول: أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدًا عبد الله ورسوله إلا فتُحِتْ له أبواب الجنة الثمانية يدخل من أيها شاء».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ذمے اونٹ چرانے کا کام تھا، میری باری آئی، تو میں شام کے وقت ان کو چرا کر واپس لایا تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو کھڑے ہوکر لوگوں کو کچھ ارشاد فرماتے ہوئے پايا، مجھے آپ ﷺ کی یہ بات (سننے کو) ملی: جو بھی مسلمان وضو کرتا ہے اور وہ اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر کھڑے ہو کر پوری یکسوئی اور توجہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بيان کرتے ہيں کہ میں نے کہا: کیا خوب بات ہے یہ ! تو میرے سامنے ایک کہنے والا کہنے لگا کہ اس سے پہلے والی بات اس سے بھی زیادہ عمدہ ہے۔ میں نے دیکھا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے کہا: میں نے دیکھا ہے تم ابھی آئے ہو، آپ ﷺ نے ( اس سے پہلے) فرمایا تھا: ’’تم میں سے جو شخص بھی وضو کرے اور اپنے وضو کو پورا کرے یا خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر یہ کہے: ”أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ“ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں)، تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جس سے چاہے داخل ہوجائے۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
اس حدیث میں وضو کے بعد مستحب ذكر (دعا) کا بيان ہے۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمارے ذمے اونٹ چرانے کا کام تھا، میری باری آئی، تو میں شام کے وقت ان کو چرا کر واپس لایا۔ یعنی وہ اپنے اونٹوں کو باری باری چرایا کرتے تھے۔ یعنی کچھ لوگ مل کر اپنے اونٹوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا کر لیتے اور روزانہ ان میں سے ایک شخص انہیں چراتا تاکہ اس میں ان کے لیے آسانی رہے اور باقی لوگ اپنے دیگر کام نمٹا لیں۔ یہاں الرعاية“ کا معنی چرانا ہے۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ”فرَوَّحْتُها بعَشِيٍّ“ یعنی دن کےاختتام پر میں نے انہیں ان کے باڑوں تک پہنچایا اور اس کام سے فارغ ہو کر رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں آگیا۔ آپ ﷺ کا یہ فرمان: پس دو رکعتیں نماز ادا کرے اس طرح کہ اپنے دل اور چہرہ سے پوری توجہ کرنے والا ہو، نبی ﷺ نے ان دو الفاظ میں خشوع و خضوع کی تمام اقسام کو سمو دیا ہے۔ کیونکہ خضوع اعضاء میں ہوتا ہے اور خشوع دل میں۔ عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”مَا أَجْوَدَ هَذِهِ“ (یہ کیا ہی عمدہ ہے!) یعنی یہ بات یا فائدہ یا خوش خبری یا عبادت کیا ہی عمدہ ہے۔ اور اس کی عمدگی کئی اعتبار سے ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ يہ بہت سہل اور آسان ہے جسے ہر کوئی بنا کسی مشقت کے سر انجام دے سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کا اجر بہت زیادہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کا قول: ”جِئْتَ آنِفًا“ یعنی تم ابھی ابھی آئے ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”فَيُبْلِغُ أَوْ فَيُسْبِغُ الْوَضُوءَ“ یہ تردد راوی کی طرف سے ہے (یعنی آپ ﷺ نے "یبلغ" یا "یسبغ" فرمایا) بہر حال دونوں کا ایک ہی معنی ہے یعنی جو اسے پورے اور مکمل انداز سے کرے اور مسنون طریقے سے اعضاءِ وضو تک پانی کو پہنچائے۔ اس حدیث کی بنیاد پر وضو کرنے والے کے لیے اپنے وضو کے بعد یہ دعا پڑھنا مستحب ہے: ”أَشْهَدُ أَنَّ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ الله وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ“ اور مناسب ہے کہ اس دعا کے ساتھ ترمذی شریف كى روايت ميں وارد اسی حدیث سے متصل الفاظ: ”اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ، وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ“ (اے اللہ! تو مجھے بہت زيادہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں ميں سے بنا) بھی ملا لیے جائیں۔ اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ ان الفاظ کو بھی ان کے ساتھ ملا لیا جائے جو امام نسائی نے اپنی کتاب عمل اليوم و الليلة میں مرفوعاً ذکر کئے ہیں: ”سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ، وَحْدَكَ لا شَرِيكَ لَكَ ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ“ تو پاک ہے اے اللہ اور تیری تعریف کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں، میں تجھ سے بخشش چاہتا ہوں اور میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں۔