عن أبي سَلمة بن عبد الرحمن، أنه أخْبَره: أنه سَأل عائشة رضي الله عنها ، كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ فقالت: «ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يَزيد في رمضان ولا في غَيره على إحدى عَشرة ركعة يصلِّي أربعا، فلا تَسَل عن حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثم يصلِّي أربعا، فلا تَسَل عن حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثم يصلَّي ثلاثا». قالت عائشة: فقلت يا رسول الله: أتنام قبل أن توتر؟ فقال: «يا عائشة إن عَيْنَيَّ تَنَامَانِ ولا يَنام قَلْبِي»
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابو سلمہ بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کیسے ہوتی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا: رسول اللہ ﷺ رمضان اورغیر رمضان میں (تہجد) کبھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ پہلے چار رکعتیں پڑھتے، پسں نہ پوچھو کہ وہ کتنی حسین اور کتنی لمبی ہوتی تھیں؟ پھر چار رکعتیں پڑھتے، ان کے بھی حسن اور لمبائی کے بارے میں نہ پوچھو، پھر تین رکعتیں (وتر) پڑھتے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
یہ بات تو معروف ہے کہ نبی ﷺ رمضان ہو یا غیر رمضان رات معریں قیام فرماتے تھے، اور جب بات ایسی تھی تو ابو سلمہ نے قیامِ رمضان سے متعلق پوچھا کہ آپ ﷺ کی نماز رمضان کی راتوں میں رکعات کے اعتبار سے کیا غیر رمضان کی نماز کی طرح ہوتی تھی یا معاملہ کچھ اس کے علاوہ تھا ؟ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ رمضان ہو یا غیر رمضان، آپ ﷺ کی نماز کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا تھا، کیوں کہ آپ ﷺ سال بھر گیارہ رکعت پڑھتے تھے اس سے زیادہ نہیں، اور پھر اس نماز کی کیفیت اپنے اس قول کے ساتھ بیان کی کہ آپ چار رکعتیں پڑھتے، یہاں پر مقصود یہ ہے کہ آپ ﷺ دو رکعات پڑھتے اور پھر سلام پھیرتے پھر دو رکعات پڑھتے اور پھر سلام پھیرتے، کیوں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث میں جو اجمال و اختصار ہے اس کی وضاحت و تفصیل اپنی اس حدیث میں کی ہے جس کی تخریج امام مسلم نے کی ہے، بایں طور کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ”رسول ﷺ نماز عشاء سے فارغ ہونے کے بعد نماز فجر کے بیچ گیارہ رکعت پڑھتے تھے، ہر دو رکعت كے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے“۔ اسی کے ساتھ رسول ﷺ کا یہ فرمان ہے: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے“ (متفق علیہ) ”ان رکعتوں کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا؟“ یعنی ان رکعتوں کی کیفیت کے متعلق نہ پوچھو، کیوں کہ وہ تلاوت کی عمدگی، قیام، رکوع اور سجدہ کی لمبائی میں منتہائے حسن وکمال پر تھیں۔ اور اسی طرح آخر کی چاروں رکعتیں دو دو رکعت کرکے پڑھتے۔ پس ان رکعتوں میں تلاوتِ قرآن کی خوبی اور کمال، طولِ قیام اور رکوع و سجود کی طوالت کے بارے میں نہ پوچھو۔ ”پھر تین رکعتیں پڑھتے“ ظاہر کلام سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ ان تینوں رکعتوں کو فصل کئے بغیر پڑھتے، پھر آخری رکعت میں سلام پھیر دیتے تھے، لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا کی دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور پھر ایک رکعت وتر پڑھتے،اور اس کے الفاظ یہ ہیں: ”آپ ﷺ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور پھر ایک رکعت وتر پڑھتے“ اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ آپ ﷺ تین رکعتوں میں سلام کے ذریعہ فصل کرتے تھے۔ ”عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں؟“ یعنی آپ وتر پڑھنے سے پہلے کیسے سوتے ہیں؟ ”عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا“ اس کا معنیٰ و مفہوم یہ ہے کہ: آپ ﷺ کا دل بند نہیں ہوتا جس طرح آنکھ بند ہو جاتی ہے، آپ کا دل متوجہ رہتا ہے اور ہر چیز کا ادراک کر لیتا ہے، اور اسی قبیل سے وقت کی رعایت اور پابندی بھی ہے اور اسی ناطے انبیا ء کا خواب وحی کا حصہ مانا جاتا ہے۔