عَنْ عَبْدِ اللهِ بنِ عُمَر رضي الله عنهما قال: قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم:
«بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ الْبَيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح مسلم: 16]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، خانۂ کعبہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح مسلم - 16]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کو پانچ ارکان پر کھڑی ایک عمارت کے مشابہ قرار دیا ہے۔ اسلام کے باقی کام اس عمارت کے تتمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان پانچ ارکان میں سے پہلا رکن اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہيں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہيں۔ یہ دونوں گواہیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور ایک ہی رکن کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بندہ ان کو اپنی زبان سے، اللہ کے ایک ہونے اور بس اسی کے عبادت کا حق دار ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے، ان کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول ہونے کا یقین رکھتے ہوئے اور آپ کا اتباع کرتے ہوئے، ادا کرے گا۔ دوسرا رکن نماز قائم کرنا ہے۔ دن اور رات میں پانچ فرض نمازیں ہيں۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشا۔ ان پانچ نمازوں کو ان کی شرطوں، ارکان اور واجبات کے ساتھ ادا کیا جائے گا۔ تیسرا رکن فرض زکاۃ دینا ہے۔ دراصل زکاۃ ایک مالی عبادت ہے، جو شریعت کی جانب سے مال کی ایک متعینہ مقدار پر واجب ہوتی ہے اور جسے اس کے حق داروں کو دیا جاتا ہے۔ چوتھا رکن حج ہے۔ حج در اصل اللہ کی عبادت کے طور پر مناسک کی ادائیگی کے لیے مکہ کا قصد کرنے کا نام ہے۔ پانچواں رکن رمضان مہینے کے روزے رکھنا ہے۔ روزہ نام ہے کھانے، پینے اور دیگر روزہ توڑنے والی چیزوں سے فجر طلوع ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک اللہ کی عبادت کی نیت سے رکے رہنے کا۔