+ -

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ، خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ، احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ، فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ (لَوْ) تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ».

[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 2664]
المزيــد ...

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
"مضبوط مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور محبوب ہے۔ تاہم خیر تو دونوں ہی میں ہے۔ جو چیز تمہارے لیے فائدے مند ہو، اس کی حرص رکھو اور اللہ سے مدد مانگو اور عاجز نہ بنو۔ اگر تم پر کوئی مصیبت آ جائے، تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسا کر لیتا، تو ایسا ہوجاتا۔ بلکہ یہ کہو کہ یہ اللہ کی تقدیر ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کیوں کہ ”اگر“ شیطان کے عمل دخل کا دروازہ کھول دیتا ہے“۔

[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح مسلم - 2664]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ ویسے تو ہر مومن میں خیر ہوتی ہے، لیکن ایمان، عزیمت اور مال وغیرہ طاقت کے پہلوؤں میں قوی مومن اللہ عز و جل کے یہاں کمزور مومن سے بہتر اور زیادہ محبوب ہے۔ اس کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مومن کو ایسے اسباب اختیار کرنے کی وصیت فرمائی جن سے دنیا وآخرت کی بھلائی حاصل ہو سکے‘ ساتھ ہی اللہ پر اعتماد، اس سے مدد مانگنے کا جذبہ اور اس پر بھروسہ شامل حال ہوں۔ پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عاجزی، سستی اور دونوں جہانوں میں نفع پہنچانے والی چيزوں سے پیچھے رہنے سے منع فرمایا ہے۔ جب مومن پوری تندہی سے عمل کرے، اسباب اختیار کرے، اللہ سے مدد اور خیر طلب کرتا رہے، تو اس کے بعد بس اتنا بچ جاتا ہے کہ اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کر دے اور اس بات کا یقین رکھے کہ اللہ جو کرے گا، وہ خیر ہی ہوگا۔ اس کے بعد اگر کوئی مصیبت لاحق ہو، تو یہ نہ کہے : "اگر میں ایسا کر لیتا، تو ایسا اور ایسا ہوتا۔" "کیوں کہ لفظ (اگر) شیطان کے عمل کے راستے کھول دیتا ہے۔" یعنی انسان تقدیر پر اعتراض اور فوت شدہ چيز پر افسوس کرنے لگتا ہے۔ انسان کو راضی بہ رضا رہتے ہوئے اور خود سپردگی کا ثبوت دیتے ہوئے بس اتنا کہنا چاہیے : "یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور اللہ جو چاہتا ہے، کرتا ہے۔" لہذا جو کچھ ہوا، وہ اللہ کے ارادے کے مطابق ہوا۔ کیوں کہ وہ جو چاہتا ہے، کر گزرتا ہے۔ اس کے فیصلے کو کوئی ٹال نہيں سکتا اور اس کے حکم کو کوئی روک نہیں سکتا۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تھائی پشتو آسامی السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية ภาษาคีร์กีซ النيبالية ภาษาโยรูบา الليتوانية الدرية الصربية الصومالية คำแปลภาษากินยาร์วันดา الرومانية التشيكية ภาษามาลากาซี คำแปลภาษาโอโรโม ภาษากันนาดา
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. ایمان میں لوگوں کا تفاوت۔
  2. اعمال میں قوت کا استحباب، کیوں کہ قوت سے وہ وہ فوائد حاصل ہو سکتے ہيں، جو ضعف سے حاصل نہيں ہو سکتے۔
  3. انسان کو چاہیے کہ نفع بخش چیزوں کا اہتمام کرے اور نقصان دہ امور سے اجتناب کرے۔
  4. مومن پر واجب ہے کہ اپنے تمام معاملات میں اللہ سے مدد طلب کرے اور اپنی ذات پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھے۔
  5. قضا اور قدر کا ثبوت۔ قضا و قدر پر ایمان اسباب اختیار کرنے اور خیر كی کوشش کرنے سے متصادم نہیں ہے۔
  6. مصیبتوں کے وقت ناراضگی کے طور پر لفظ "اگر" کہنے کی ممانعت اور قضا و قدر پر اعتراض کرنے کی حرمت۔
مزید ۔ ۔ ۔