«إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ».
[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 2654]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بنی آدم کے دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ایسے ہیں جیسے وہ سب ایک ہی دل ہو اور وہ جیسے چاہتا ہے ان کو پلٹتا رہتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ دعا فرمائی ”اللهم مُصَرِّفَ القلوبِ صَرِّفْ قلوبَنا على طاعتك“ اے اللہ! اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیرے رکھے۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
نبی ﷺ بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں اور دیگر مخلوقات کے دلوں میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔ اس کی راہ میں اللہ کے سامنے کوئی شے بھی رکاوٹ نہیں بنتی اور نہ ہی جس کام کے کرنے کا وہ ارادہ رکھتا ہے وہ اس کی دسترس سے باہر ہوتا ہے۔چنانچہ بندوں کے دل سارے کے سارے اللہ تعالی کی انگلیوں کے مابین ہیں۔ وہ بندے کے نوشتہ تقدیر کے مطابق اس سے جو چاہ رہا ہوتا ہے اس کی طرف اسے پھیر دیتا ہے۔ پھر نبی ﷺ نے یہ دعا مانگی ”اللهم مُصَرِّفَ القلوبِ صَرِّفْ قلوبَنا على طاعتك“ اے اللہ! اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیرے رکھ۔ یعنی اے وہ ذات جو دلوں کو پھیرتی ہے اور انہیں جس طرف کرنا چاہتی ہے کر دیتی ہے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت میں لگا دے اور انہیں اس اطاعت پر ثابت قدم رکھ ۔ انگلیوں کی قوت، قدرت یا کسی اور معنی کے ساتھ تاویل کرنا جائز نہیں ہے بلکہ بغیر کسی تحریف و تعطیل اور بنا کسی تکییف و تمثیل کے اُس کا اللہ تعالی کی صفت کے طور پر اثبات کرنا واجب ہے۔
قال الآجري: إن أهل الحق يَصِفُوْن الله عز وجل بما وصف به نفسه عز وجل، وبما وصفه به رسوله صلى الله عليه وسلم، وبما وصفه به الصحابة رضي الله عنهم، وهذا مذهب العلماء ممن اتبع ولم يَبتدِع. انتهى. فأهل السنة يُثْبِتُوْن لله ما أثبته لنفسه من الأسماء والصفات من غير تحريف ولا تعطيل ولا تكييف ولا تمثيل، ويَنْفُون عن الله ما نفاه عن نفسه، ويَسكتون عما لم يَرِدْ به نفيٌ ولا إثبات، قال الله تعالى: (لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ).لا حاجة لأبينها إذ لم يتجرأ أحد من السلف بأن قال أصبعان حقيقيان وإنما قالوا أصبعان لا نعلمهما. هذا وإن المنصفين يعلمون أن الخلف وإن أوّلوا المعنى بالقدرة والإرادة فهم: لم ينكروا أن له أصبعين لكن رفضوا أن يكون المعنى على ظاهره لقرينة منعت ذلك. لم يأتوا بمعنى مخالف لظاهر الحديث فهو يفيد قدرة الله وإرادته في عباده وهذا ما تأولوا معناه هذا وإن المخالفين لهم حتى وإن أثبتوا الأصبعين الحقيقيين الذين نعلمهما فإنهم لا مفرّ لهم من تأول المعنى