عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعاً: «قال الله عز وجل : أنا عند ظنِّ عَبدي بي، وأنا معه حيث يَذكُرني، والله، لَلَّه أَفرَحُ بِتَوبَةِ عَبدِهِ مِنْ أَحَدِكُم يَجدُ ضَالَّتَهُ بالفَلاَة، وَمَنْ تَقَرَّب إِلَيَّ شِبْرًا، تقرَّبتُ إليه ذِرَاعًا، ومن تقرب إلي ذِراعًا، تقربت إليه بَاعًا، وإذا أَقْبَلَ إِلَيَّ يمشي أَقْبَلْتُ إِلَيهِ أُهَرْوِلُ». متفق عليه، وهذا لفظ إحدى روايات مسلم. وروي في الصحيحين: «وأنا معه حِينَ يَذْكُرُنِي» بالنون، وفي هذه الرواية. «حيث» بالثاء وكلاهما صحيح.
[صحيح] - [متفق عليه وها لفظ مسلم]
المزيــد ...

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں اور ميں اس کے ساتھ ہوں جہاں بھی وہ مجھے یاد کرے۔ اللہ کی قسم! يقيناً اللہ اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو جنگل میں اپنی گم شدہ چيز پاليتا ہے۔ جو ایک بالشت میرے قریب آتا ہے میں ایک ہاتھ اُس کے قریب آتا ہوں، اورجو ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دو ہاتھ اُس کے قریب آتا ہوں، اور جب وہ ميری طرف چلتا ہوا آتا ہے میں اس کی طرف دوڑتا ہوا آتا ہوں"c2">“۔ متفق علیہ۔ یہ صحیح مسلم کی روایات میں سے اس کی ایک روایت کے الفاظ ہیں۔ صحيحين ميں مروی الفاظ ”وَأَنَا مَعَهُ حِينَ يَذْكُرَنِي"c2">“ نون کے ساتھ ہيں۔ جبکہ اس روايت ميں ”حيث“ ثاء کے ساتھ ہے۔ اور دونوں ہی صحيح ہيں۔
صحیح - متفق علیہ

شرح

اللہ تعالی اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر وہ اللہ سے اچھا گمان رکھتا ہے تو اسے اچھائی حاصل ہوتی ہے اور اگر وہ اس کے علاوہ کچھ اور گمان رکھتا ہے تو اسے وہی کچھ ملتا ہے۔ چنانچہ مسند امام احمد میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالىٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں، اگر وہ میرے متعلق خیر کا گمان کرتا ہے تو خیر کا معاملہ کرتا ہوں اور اگر شر کا گمان کرتا ہے تو شر کا معاملہ کرتا ہوں“۔ لیکن سوال یہ ہے کہ (بندہ) اللہ کے ساتھ حسن ظن کب رکھے گا؟ وہ اللہ کے ساتھ حسن ظن اس وقت رکھے گا جب وہ ایسے کام کرے جو اللہ کے فضل واحسان اور اس کی امید کے موجب ہوں۔ چنانچہ وہ نیک اعمال کرے اور یہ حسنِ ظن رکھے کہ اللہ انہیں قبول فرمائے گا۔ البتہ عمل کئے بغیر حسنِ ظن رکھنا تو یہ اللہ سے بے جا تمنائیں لگانے کے قبیل سے ہے۔ اور جو شخص اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے لگادے اور پھر اللہ سے تمنائیں رکھے تو درحقیقت وہ عاجز ہے۔ اگر آپ بر سرِعام اللہ کی نافرمانی کرنے کے باوجود اس سے حسنِ ظن رکھتے ہیں، تو جان لیجئے کہ یہ عاجز وبے بس لوگوں کا شیوہ ہے جن کے پاس کچھ سرمایۂ عمل ہی نہیں ہوتا کہ اس کا سہارا لے سکیں۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں کچھ شک نہیں کہ حسنِ ظن نیکی کرنے کے ساتھ ہوتا ہے۔ نیک شخص کا اپنے رب کے بارے میں یہ حسنِ ظن ہوتا ہے کہ وہ اس کی نیکی پر اسے بدلہ دے گا اور اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرے گا اور اس کی توبہ کو قبول کرے گا۔ جہاں تک کبیرہ گناہوں، ظلم اور شرعی خلاف ورزیوں پر اصرار کرنے والے گناہ گار شخص کا معاملہ ہے تو گناہوں، ظلم اور حرام کی وحشت و گھبراہٹ اسے اپنے رب سے حسنِ ظن رکھنے سے روکتی ہے...، چنانچہ اپنے آقا کی اطاعت سے نکل جانے والا بھگوڑا غلام اس سے حسنِ ظن نہیں رکھتا۔ گناہ کی وحشت کے ساتھ حسن ظن کبھی بھی اکٹھا نہیں ہو سکتا، کیوں کہ گناہ گار شخص اپنے گناہ کے بقدر وحشت اور گھبراہٹ محسوس کرتا ہے اور لوگوں میں اپنے رب سے سب سے زیادہ حسنِ ظن رکھنے والا وہ شخص ہے جو ان میں سے سب سے زیادہ فرماں بردار ہو۔ جیساکہ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مومن اپنے رب کے متعلق اچھا گمان رکھتا ہے اس لیے وہ اچھا عمل کرتا ہے، جبکہ فاجر شخص اپنے رب کے متعلق برا گمان رکھتا ہے اس لیے وہ عمل بھی برا ہی کرتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ پر اس کی ذاتِ سبحانہ وتعالی کے لائق جیسا خوش ہونا ہے خوش ہوتا ہے، اس شخص کے مانند جو جنگل میں اپنی گم شدہ چيز پاليتا ہے۔ توبہ در اصل (گناہ کا) اعتراف، (اس پر) ندامت، گناہ کو چھوڑ دینا، آئندہ اس گناہ کا ارتکاب نہ کرنے کا پختہ عزم کرنے کا نام ہے۔ پھر آپ ﷺ نے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے زیادہ کریم ہے۔ جب بندہ اللہ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس سے ایک ہاتھ قریب ہو تا ہے اور اگر وہ اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہے اور اگر وہ اللہ کی طرف چل کر آتا ہے تو اللہ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے بندے سے زیادہ کریم اور اس سے زیادہ تیزی سے اس کا جواب دینے والا ہے۔ اس حدیث میں ان باتوں کا بیان ہے جن کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں حقیقت ہیں، لیکن ہم اس بھاگ کر آنے کی کیفیت کو نہیں جانتے اور نہ ہی اس قریب آنے کی کیفیت کا ہمیں ادراک ہے۔ یہ ایسا امر ہے جس کی کیفیت اللہ تعالی ہی کو معلوم ہے اور ہمارے لیے درست نہیں کہ ہم اس معاملے میں لب کشائی کریں۔ لیکن ہم اس کے معنی پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی کیفیت کے علم کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کے اپنے بندے کے ساتھ ہونا (معیت) دو طرح کا ہے: ایک خاص معیت جس کا تقاضا نصرت وتائید کرنا ہے۔ اور یہی قسم حدیث میں مذکور ہے۔ اور دوسری عام معیت ہے جوعلم اور احاطہ کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ اللہ کے شایانِ شان ایک حقیقی صفت ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان روسی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی ویتنامی سنہالی کردی ہاؤسا پرتگالی سواحلی تمل
ترجمہ دیکھیں
مزید ۔ ۔ ۔