عن عائشة رضي الله عنها قالت: دَخَلَت عَلَيَّ امرأَة ومعَهَا ابنَتَان لَهَا، تَسْأَل فَلَم تَجِد عِندِي شَيئًا غَير تَمرَة وَاحِدَة، فَأَعْطَيتُهَا إِيَّاهَا فَقَسَمتْهَا بَينَ ابنَتَيهَا وَلَم تَأكُل مِنهَا، ثُمَّ قَامَت فَخَرَجَت، فَدَخَل النبي صلى الله عليه وسلم علينا، فَأَخْبَرتُه فقال: «مَنْ ابْتُلِيَ مِنْ هذه البنَاتِ بِشَيءٍ فأَحْسَن إِلَيهِنَّ، كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِن النَّار».
[صحيح] - [متفق عليه، واللفظ للبخاري]
المزيــد ...
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی۔ اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں بھی تھیں۔ اس نے مجھ سے مانگا لیکن اُسے میرے پاس سے ایک کھجور کے علاوہ کچھ بھی نہ مل سکا۔ چنانچہ میں نے اس کو وہی ایک کھجور دے دی۔ اس نے اس کھجور کو اپنی دونوں بچیوں میں بانٹ دیا اور خود اس میں سے کچھ بھی نہ کھایا۔ پھر وہ اٹھ کر چلی گئی۔ اتنے میں نبی ﷺ گھر تشریف لائے۔ میں نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ان بچیوں کی وجہ سے کسی آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ سے آڑ بن جائیں گی“۔
[صحیح] - [یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔]
عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ دو بیٹیاں تھیں۔ وہ آپ رضی اللہ عنہا سے مانگ رہی تھی کیونکہ وہ غریب عورت تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اسے میرے پاس سے صرف ایک کھجور ہی ملی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اسے یہ دے دی۔ اس نے یہ کھجور آدھی آدھی کر کے اپنی دونوں بیٹیوں میں تقسیم کردی۔ آدھی ایک بیٹی کو دے دی اور آدھی دوسری کو اور خود اس میں سے کچھ بھی نہ کھایا۔نبی ﷺ جب عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا کیونکہ یہ بہت عجیب وغریب قصہ تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص کو ان بیٹیوں کی وجہ سے کسی آزمائش میں مبتلا کیا گیا اوراس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے پردہ بن جائیں گی“۔ نبی ﷺ کے فرمان: ”جس شخص کی آزمائش کی گئی“ سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اس سے مراد بری آزمائش ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جس کے مقدر میں یہ ہوئیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ﴾ [الأنبياء: 35] ترجمہ:”ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہمارہی ہی طرف لوٹائے جاؤگے“۔ یعنی جس کے مقدر میں دو بیٹیاں ہوئیں اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک روا رکھا تو وہ قیامت کے دن اس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ بن جائیں گی۔ یعنی بیٹیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ سے اوٹ میں کر دے گا کیونکہ بیٹی کمزور ہوتی ہے اور کمائی نہیں کر سکتی۔ کمائی مرد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ﴾ [النساء: 34]۔ ترجمہ: ”مرد عورتوں پر حاکم ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں“۔