عَن أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ:
سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّا نَرْكَبُ البَحْرَ، وَنَحْمِلُ مَعَنَا القَلِيلَ مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ عَطِشْنَا، أَفَنَتَوَضَّأُ مِنَ الْبَحْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ، الحِلُّ مَيْتَتُهُ».
[صحيح] - [رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه وأحمد] - [سنن الترمذي: 69]
المزيــد ...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں :
ایک شخص نے اللہ کے رسول ﷺ سے سوال کیا : "یا رسول اللہ! ہم سمندری سفر پر جاتے ہیں اور ہمارے ساتھ تھوڑا سا پانی ہوتا ہے۔ اگرہم اس سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جاتے ہیں۔ لہذا کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟"۔ اللہ کے رسول ﷺ نے جواب دیا : "سمندر کا پانی پاک کرنے والا اور اس کا مردار حلال ہے"۔
[صحیح] - - [سنن الترمذي - 69]
ایک شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا : ہم شکار، تجارت اور اس طرح کے دوسرے مقاصد کے تحت کشتیوں میں سوار ہوکر سمندر کا سفر کرتے ہيں۔ ہمارے ساتھ پینے کا پانی بس تھوڑا سا ہوتا ہے۔ اگر ہم اس کا استعمال وضو اور غسل میں کریں گے، تو وہ ختم ہو جائے گا اور پینے کا پانی نہیں بچے گا۔ لہذا کیا ہمارے لیے سمندر کے پانی سے وضو کرنا جائز ہوگا؟
چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سمندر کے پانی کے بارے میں فرمایا : اس کا پانی خود بھی پاک ہے اور اس کے اندر دوسرے کو پاک کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ اس سے وضو اور غسل جائز ہے۔ اس سے نکلنے والی مچھلیوں وغیرہ کا کھانا بھی جائز ہے۔ اگرچہ وہ مردہ حالت میں پانی کی سطح پر تیرتی ہوئی ہی کیوں نہ پائی جائيں اور کسی نے ان کا شکار نہ بھی کیا ہو۔