عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
«إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ» فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الحَمْوَ؟ قَالَ: «الحَمْوُ المَوْتُ».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 5232]
المزيــد ...
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
”عورتوں کے پاس جانے سے اجتناب کرو“۔ ایک انصاری شخص نے سوال کیا : یا رسول اللہ! شوہر کے قریبی رشتہ دار (بھائی، چچا زاد وغیرہ) کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”شوہر کا قریبی رشتہ دار تو موت ہے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 5232]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اجنبی عورتوں کے ساتھ اختلاط سے منع فرمایا۔ فرمایا کہ خود کو عورتوں کے پاس جانے سے بچاؤ اور عورتوں کو تمھارے پاس آنے سے بچاؤ۔
یہ سن کر ایک انصاری شخص نے عرض کیا : شوہر کے رشتے داروں، جیسے شوہر کے بھائی، بھتیجے، چچا اور چچیرے بھائی وغیرہ، جن سے شادی شدہ نہ ہونے کی صورت میں اس کى شادی جائز ہوتی ہے، کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا: ان سے اسی طرح خبردار رہو، جس طرح موت سے خبردار رہتے ہو۔ کیوں کہ شوہر کے رشتے داروں کے ساتھ خلوت دینی فتنے اور ہلاکت کا سبب ہے۔ باپ اور بیٹوں کو چھوڑ کر شوہر کے دیگر رشتے داروں سے گھلنے ملنے کی ممانعت اجنبیوں کے بالمقابل تو بدرجۂ اولی ہونی چاہیے۔ کیوں کہ ان سے خلوت کے مواقع زیادہ رہتے ہيں اور برائی وفتنے کے امکانات بھی کہیں زیادہ رہتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کیوں کہ ان کى پہونچ عورت تک بآسانی ہوجاتی ہے اور ان کے لئے عورت کے ساتھ تنہائى
کے مواقع پالینا بھی معمولى بات ہوتی ہے اور ایسا ہونے پر اعتراض کی گنجائش بھی کم ہوتى ہے۔ عورت کا شوہر کے قریبی رشتہ داروں سے مکمل چھپ کر اور الگ تھلگ رہنا تقریب ناممکن ہوتا ہے۔ اس معامعلے میں عام طور سے تساہل بھی پایا جاتا ہے۔ کئی بار بھابھی کے ساتھ تنہائی ہو جاتی ہے۔ اس لیے یہ برائی اور بگاڑ کے معاملے میں موت جیسی ہے۔ اس کے برخلاف اجنبی شخص سے تو اس سے احتیاط برتی ہی جاتی ہے۔