+ -

عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ أَنَّهُ قَالَ: أَقْبَلْتُ أَقُولُ مَنْ يَصْطَرِفُ الدَّرَاهِمَ؟ فَقَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنهما: أَرِنَا ذَهَبَكَ، ثُمَّ ائْتِنَا، إِذَا جَاءَ خَادِمُنَا، نُعْطِكَ وَرِقَكَ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: كَلَّا، وَاللهِ لَتُعْطِيَنَّهُ وَرِقَهُ، أَوْ لَتَرُدَّنَّ إِلَيْهِ ذَهَبَهُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
«الْوَرِقُ بِالذَّهَبِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا، إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ».

[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح مسلم: 1586]
المزيــد ...

مالک بن اوس بن حدثان سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں یہ کہتے ہوئے آیا کہ (دینار سے) درہم بدل کر کون دے گا؟ تو طلحہ بن عبیداللہ نے، جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے، کہا : مجھے اپنا سونا دکھاؤ، پھر (بعد میں) آؤ، جب ہمارا خادم آ جائے گا، تو ہم تمھیں تمھاری چاندی دے دیں گے۔ یہ سن کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا : ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! تم اسے اس کی چاندی دے دوگے یا پھر اس کا سونا واپس کر دوگے۔ کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
”چاندی سونے کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے۔ گیہوں گیہوں کے بدلے میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے۔ جَو جَو کے بدلہ میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے۔ کھجور کھجور کے بدلے میں اگر نقد نہ ہو تو سود ہوجاتا ہے“۔

[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح مسلم - 1586]

شرح

تابعی مالک بن اوس بتا رہے ہیں کہ ان کے پاس کچھ سونے کے دینار تھے۔ ان کو وہ چاندی کے درہموں سے بدلنا چاہتے تھے۔ لہذا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ ہمیں اپنے دینار دیں کہ میں ان کو دیکھ لوں۔ پھر خریدنے کا ارادہ ہو گیا، تو کہا کہ جب ہمارا خادم آئے، تو آپ آجائيں، ہم آپ کو چاندی کے درہم دے دیں گے۔ اتفاق سے وہاں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ انھوں نے اس طرح کے معاملے کو غلط بتایا اور طلحہ کو قسم دے کر کہا کہ وہ یا تو چاندی ابھی دے دیں یا پھر لیا ہوا سونا واپس کر دیں۔ انھوں نے اس کا سبب یہ بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: سونے کو چاندی سے یا چاندی کو سونے سے بيچنا ہو، تو لین دین ہاتھوں ہاتھ ہو جانا چاہیے، ورنہ معاملہ سود پر مشتمل ہو جائے گا اور اس بنا پر یہ بیع حرام ہوگی۔ لہذا سونے کو چاندی کے بدلے میں یا چاندی کو سونے کے بدلے میں بیچنا اسی وقت درست ہوگا، جب لین دین ہاتھوں ہاتھ ہو اور دونوں جانب سے قبضہ ہو جائے۔ اسی طرح گیہوں کو گیہوں کے بدلے، جو کو جو کے بدلے اور کھجور کو کھجور کے بدلے بیچنا اسی وقت درست ہوگا، جب وزن اور ناپ برابر ہو اور دونوں جانب قبضہ اسی وقت ہو جائے۔ ان چيزوں میں نہ تو ایک طرف نقد اور ایک طرف ادھار رکھا جا سکتا ہے اور قبضے سے پہلے الگ ہو جانے کو روا رکھا جا سکتا ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم سواحلی تھائی جرمنی پشتو آسامی الأمهرية الهولندية الغوجاراتية الرومانية คำแปลภาษาโอโรโม
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. اس حدیث مین پانچ اصناف کا ذکر ہے۔ سونا، چاندی، گیہوں، جو اور کھجور۔ جب بیع میں دونوں جانب ایک ہی صنف کی چيز ہو، تو اس کے صحیح ہونے کے لیے دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ عقد کی مجلس ہی میں دونوں جانب قبضہ مکمل ہو جائے اور دوسری یہ کہ وزن برابر ہو۔ اگر ایسا نہيں ہوتا، تو اس میں "ربا الفضل" آ جائے گا۔ لیکن اگر خرید و فروخت کی صنف الگ الگ ہو جائے، تو عقد کے صحیح ہونے کے لیے ایک ہی شرط ہوگی۔ وہ ہے، مجلس عقد ہی میں قیمت پر قبضہ کر لینا۔ اگر یہ شرط پوری نہیں ہوتی، تو اس میں "ربا النسيئة" آ جائے گا۔
  2. عقد کی مجلس سے مراد خرید و فروخت کی جگہ ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ دونوں بیٹھے ہوں، چل رہے ہوں یا سوار ہوں۔ اسی طرح الگ ہونے سے مراد وہی ہے، جسے عرف عام میں الگ ہونا مانا جائے۔
  3. اس حدیث میں آئی ہوئی ممانعت کے دائرے میں ہر طرح کا سونا آ جاتا ہے۔ ڈھلا ہوا ہو کہ غیر ڈھلا ہو۔ ایسے ہی ہر طرح کی چاندی بھی آ جاتی ہے۔ ڈھلی ہوئی ہو کہ غیر ڈھلی ہوئی۔
  4. دور حاضر کی کرنسیوں کو آپس میں بدلتے وقت اسی بات کا خیال رکھنا ضروری ہوگا، جس کا خیال سونے کو چاندی سے بدلتے وقت رکھنا پڑتا ہے۔ یعنی طرفین کی آپسی رضامندی کے مطابق کمی بیشی ہو تو جائز ہے، لیکن بیع کی مجلس میں دونوں جانب قبضہ ضروری ہے۔ ایسا نہيں ہو تو اس میں سود در آئے گا اور بیع باطل ہو جائے گی۔
  5. سودی معاملات جائز نہیں ہیں اور اس طرح کا عقد باطل ہے، چاہے دونوں طرف سے رضامندی موجود ہی کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ اسلام انسانیت اور سماج کے حق کی حفاظت کرتا ہے، خواہ وہ اپنا حق چھوڑنا بھی کیوں نہ چاہے۔
  6. غلط کام ہوتا ہوا دیکھ کر منع کرنا چاہیے۔ طاقت ہو تو روکنا بھی چاہیے۔
  7. غلط کام سے منع کرتے وقت دلیل بھی پیش کر دینی چاہیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہی کر کے دکھایا۔
مزید ۔ ۔ ۔