+ -

عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه خَمْسَ سِنِينَ، فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:
«كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ» قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: «فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ».

[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 3455]
المزيــد ...

ابو حازم سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے پانچ سال تک ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہم نشینی کا موقع ملا۔ میں نے ان سے سنا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
”بنی اسرائیل کی رہ نمائی انبیا کرتے تھے۔ جب ایک نبی فوت ہو جاتا تو اس کا جانشین دوسرا نبی بن جاتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ البتہ میرے بعد خلفا ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے“۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ ان کے بارے میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس سے پہلے بیعت کرو، اس کی بیعت پوری کرو، پھر اس کے بعد والے کى بیعت پروى کرو۔ انہیں ان کا حق ادا کرو۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جن کا والی بنایا یے، ان کی بابت وہ خود ان سے پوچھ لے گا“۔

[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 3455]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا ہے کہ بنی اسرائیل کی قیادت انبیا کرتے تھے۔ انبیا ان کے سارے کام اسی طرح کرتے تھے، جس طرح حکمراں و سلاطین اپنی رعایا کے کام کرتے ہيں۔ جب بھی بنی اسرائیل کے اندر کوئی بگاڑ پیدا ہوتا، اللہ ایک نبی بھیج دیتا، جو اس بگاڑ کو درست کر دیتا۔ لیکن میری امت میں یہ کام کرنے کے لیے میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ میرے بعد خلیفے ہوں، جو بڑی تعداد می ہوں گے اور ان کے اختلافات اور جھگڑے بھی نمودار ہوں گے۔ چنانچہ صحابہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا : ایسے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہيں؟ آپ نے جواب دیا : جب ایک خلیفہ کے بعد دوسرے خلیفہ سے بیعت کر لی جائے، تو پہلے خلیفہ کی بیعت صحیح ہے اور اسے نبھانا پڑے گا، جب کہ دوسرے خلیفہ کی بیعت باطل ہے۔ اس طرح کی بیعت کروانا حرام ہے۔ دیکھو، خلفا کو ان کا حق دو، ان کی اطاعت کرو اور ان کی جو بات قرآن و حدیث کے خلاف نہ ہو، اسے مانو۔ کیوں کہ وہ جو کچھ تمھارے ساتھ کر رہے ہیں، اس کے بارے میں اللہ ان سے پوچھے گا اور ان سے حساب لے گا۔

حدیث کے کچھ فوائد

  1. عوام کے لیے ایک نبی یا خلیفہ کا ہونا ضروری ہے، جو ان کے معاملات کو سنبھالے اور انہیں صراط مستقیم دکھائے۔
  2. ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا۔
  3. اس حدیث میں کسی ایسے شخص کے خلاف بغاوت کرنے سے خبردار کیا گیا ہے، جس کی حکمرانی شرعی طریقے سے ثابت ہو گئی ہو۔
  4. ایک ہی وقت میں دو خلیفوں سے بیعت جائز نہیں ہے۔
  5. امام کے اوپر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیوں کہ اللہ تعالی اس سے اس کے رعایا کے بارے میں باز پرس کرے گا۔
  6. ابن حجر کہتے ہيں : دینی معاملات کو دنیوی معاملات پر مقدم رکھا جائے گا۔ کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے حکمراں کا حق ادا کرنے کا حکم اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے دیا ہے کہ اس سے دین کی سربلندی اور فتنہ و فساد کی سرکوبی ہوتی ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ حق کے مطالبے کے حکم کو موخر کر دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حق ساقط ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ خود اللہ نے اسے اس کا پورا حق دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اخروی زندگی ہی میں سہی۔
  7. یہ حدیث محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے سچے نبی ہونے کی ایک بڑی نشانی ہے۔ کیوں کہ آپ کے بعد بے شمار خلفا ہوئے۔ بہت سے اچھے بھی اور بہت سے برے بھی۔
ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل تھائی پشتو آسامی السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية النيبالية الدرية الرومانية المجرية الموري ภาษามาลากาซี ภาษากันนาดา الولوف الأوكرانية الجورجية المقدونية الخميرية الماراثية
ترجمہ دیکھیں