عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لم يتكلَّم في المهد إلا ثلاثة: عيسى ابن مريم، وصاحب جرَيج، وكان جُريج رجلًا عابِدا، فاتخذ صَوْمَعَة فكان فيها، فأتته أمه وهو يصلي، فقالت: يا جريج، فقال: يا رَبِّ أُمِّي وصلاتي فأقبل على صلاته فانْصَرفت. فلمَّا كان من الغَدِ أتَتْهُ وهو يصلي، فقالت: يا جُريج، فقال: أي رَبِّ أمِّي وصلاتي، فأقبل على صلاته، فلمَّا كان من الغَدِ أتَتْهُ وهو يصلي، فقالت: يا جُريج، فقال: أي رَبِّ أمِّي وصلاتي، فأقبل على صلاته، فقالت: اللَّهُمَّ لاَ تُمِتْهُ حتى يَنظر إلى وجوه المُومِسَاتِ. فتذاكر بَنُو إسرائيل جُريجا وعبادته، وكانت امرأة بَغِيٌّ يُتَمَثَّلُ بحُسنها، فقالت: إن شِئتم لأَفْتِنَنَّهُ، فتَعرَّضت له، فلم يَلتَفت إليها، فأتت راعِيا كان يَأوِي إلى صَوْمَعَتِهِ، فَأَمْكَنَتْه من نَفسِها فوقع عليها، فحملت، فلمَّا ولدت، قالت: هو من جُريج، فَأتَوْهُ فَاسْتَنْزَلُوهُ وهدَمُوا صَومَعتَه، وجَعَلوا يَضربونه، فقال: ما شَأنُكم؟ قالوا: زَنَيْتَ بهذه البَغِيِّ فولَدَت منك. قال: أين الصَّبي؟ فجاؤَوا به فقال: دَعوني حتى أُصلَّي، فصلَّى فلمَّا انْصرف أتى الصَّبي فَطَعن في بَطنه، وقال: يا غُلام مَنْ أبوك؟ قال: فلانٌ الراعي، فأقبلوا على جُريج يقبلونه ويَتمسَّحون به، وقالوا: نَبْنِي لك صَوْمَعَتَكَ من ذهب. قال: لا، أعِيدُوها من طين كما كانت، ففعلوا. وبينا صبي يَرضع من أُمِّهِ فمرَّ رجل راكب على دابة فَارِهة وَشَارَةٍ حسَنَة، فقالت أمه: اللهم اجعل ابْني مثل هذا، فَترك الثَّدْي وأقْبَلَ إليه فنَظَر إليه، فقال: اللَّهم لا تجعلني مثْلَه، ثم أقْبَلَ على ثَدْيه فجعل يَرتضع»، فكأني أنظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يَحكي ارتْضَاعه بِأصْبَعِهِ السَّبَّابَة في فِيه، فجعل يَمُصُّهَا، قال: «ومَرُّوا بجارية وهم يَضْرِبُونها، ويقولون: زَنَيْتِ سَرقت، وهي تقول: حَسبي الله ونعم الوكيل. فقالت أمه: اللَّهم لا تجعل ابني مِثلها، فترك الرَّضاع ونظر إليها، فقال: اللَّهم اجعلني مِثْلَها، فَهُنَالك تَرَاجَعَا الحديث، فقالت: مرَّ رجلٌ حَسَنُ الهَيْئَةِ ، فقلت: اللَّهم اجعل ابْنِي مِثْلَه، فقلت: اللَّهم لا تَجْعَلْنِي مِثْله، ومَرُّوا بهذه الأَمَة وهم يَضربونها ويقولون: زَنَيْتِ سَرقت، فقلت: اللَّهم لا تجعل ابني مِثلها، فقلت: اللَّهم اجعلني مِثلها؟! قال: إن ذلك الرَّجُل كان جبَّارا، فقلت: اللَّهم لا تجعلني مِثْله، وإن هذه يقولون: زَنَيْتِ، ولم تَزْنِ وسَرقْتِ، ولم تَسْرِقْ، فقلت: اللَّهم اجْعَلْنِي مِثْلَهَا».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام۔ دوسرا جُرَیج والا بچہ۔ یہ جریج نامی شخص بڑا عبادت گزار تھا۔ اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج! تو وہ (دل میں ) کہنے لگا کہ یا اللہ! ایک طرف میری ماں ہے تو دوسری طرف میری نماز ( میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں)؟ آخر وہ نماز ہی میں مصروف رہا۔ اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج ! وہ کہنے لگا کہ اے اللہ! میری ماں پکار رہی ہے اور میں نماز میں ہوں۔ (اب میں کیا کروں!)۔ آخر وہ نماز میں ہی لگا رہا۔ پھر اس کی ماں اگلے دن پھر آئی تو وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے پکار لگائی کہ اے جریج! وہ کہنے لگا کہ اے رب! ایک طرف میری ماں ہے اور ایک طرف نماز۔ بہرحال وہ اپنی نماز ہی میں مشغول رہا۔ اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ! اس کو اس وقت تک وفات نہ دینا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے (یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے)۔ پھر بنی اسرائیل میں جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا ہونے لگا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی ضرب المثل تھی۔ وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو ابتلاء یا فتنہ میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف کچھ توجہ نہ کی۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آیا کرتا تھا اور اس سے زنا کرایا جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب اس نے بچہ جنا تو کہنے لگی کہ یہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اسے نیچے اتارا اور اس کے عبادت خانہ کو گرا دیا اور اس کو مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کوجنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آکر اس کے پیٹ میں ایک کچوکا لگایا اور بولا کہ اے بچے ! تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو بوسہ دینے اور اسے چھونے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ (تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر ایک خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو اس سوار جیسا بنا دے ۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یا اللہ !مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر وہ بچہ پستان کی طرف متوجہ ہوا اور دودھ پینے لگا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں (اس وقت) نبی ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ! مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا: جب ایک اچھی صورت کا آدمی گزرا تو میں نے کہا کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ! مجھے ایسا نہ کرنا اور یہ لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ بنانا اُس پر توکہتا ہے کہ یا اللہ !مجھے اس کی طرح کرنا (یہ کیا بات ہے)؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! مجھے اس جیسا بنا دے۔
صحیح - متفق علیہ

شرح

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”گود میں صرف تین بچوں نے کلام کیا“۔ یعنی اپنے بچپن کے ابتدائی دنوں میں۔ وہ یہ ہیں: اول: عیسی بن مریم علیہ السلام جو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے، انہوں نے بات کی حالانکہ ابھی وہ گود ہی میں تھے۔ دوم: جریج والا بچہ، جریج ایک عبادت گزار شخص تھے، اللہ تعالی نے انہیں اس تہمت سے بری کیا جسے لوگوں نے ان پر لگانے کا ارادہ کیا تھا اور اس نشانی کو ان کے لیے کرامت بنا دیا یعنی ایک بچے کا ان کی صفائی میں بول پڑنا۔ ہوا یہ کہ جریج اپنے لیے ایک جگہ خاص کیے تھے جہاں وہ تنہائی میں عبادت کرتے تھے، ایک مرتبہ ان کی والدہ ان کے پاس آئیں جبکہ وہ نماز میں تھے، اور انہیں پکارا اے جریج!، جریج نے سوچا اے میرے رب ایک طرف میری ماں ہے اور ایک طرف نماز، وہ اس تردد میں تھے کہ نماز توڑ دے اور والدہ کا جواب دیں یا پھر نماز مکمل کریں، پس انہوں نے نماز مکمل کی تو ان کی والدہ واپس چلے گئیں۔ دوسرے دن ان کی والدہ ان کے پاس آئیں جبکہ وہ نماز ہی میں تھے، پھر ویسا ہی ہوا جیسے پہلے دن ہوا تھا، پھر تیسرے دن ان کی والدہ ان کے یہاں آئیں تو وہی سب ہوا جو پچھلے دو دن ہوا تھا، تو ان کی والدہ نے کہہ دیا کہ اے اللہ اس کو اس وقت تک وفات نہ دینا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے۔ ایک مرتبہ بنو اسرائیل جریج اور ان کی عبادت کا تذکرہ کر ہے تھے وہاں ایک فاحشہ عورت تھی جس کی خوبصورتی ضرب المثل تھی۔ وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو ابتلاء یا فتنہ میں ڈالوں یعنی وہ اپنی نماز چھوڑ دیں گے اور زنا میں مبتلا ہو جائیں گے، پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف کچھ توجہ نہ کی۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی اور اس سے زنا کرایا جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب اس نے بچہ جنا تو کہنے لگی کہ یہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر جریج کے پاس آئے، انہیں نیچے اتارا اور ان کے عبادت خانہ کو گرا دیا اور ان کو مارنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ تمہیں کیا ہوا؟ لوگوں نے کہا کہ تم نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تم سے ایک بچے کوجنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آکر اس کے پیٹ میں ایک کچوکا لگایا اور بولا کہ اے بچے ! تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے، ان کو بوسہ دینے اور چھونے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تمہارا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولے کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ سوم: وہ تیسرا بچہ جس نے گود میں کلام کیا وہ وہ بچہ تھا جو اپنی ماں کی گود میں دودھ پی رہا تھا۔ ايسے میں ایک بہت اچھی سواری پر ایک بہت ہی خوش وضع و خوش پوشاک شخص کا گزر ہوا۔ نبی ﷺ نے اس بچے کے اپنے ماں کی چھاتی سے دودھ پینے کی حالت کو بیان کرنے کے لیے اپنی شہادت کی انگلی اپنے منہ میں ڈالی یہ بیان کرنے کے لیے کہ فی الواقع ایسے ہوا۔ ماں نے کہا: اے اللہ میرے بچہ کو اس جیسا بنا، اس بچے نے کہا: اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ بنانا۔ پھر لوگ ایک باندی کو لے کر آئے، وہ اسے مار رہے تھے اور اس سے کہہ رہے تھے کہ تو نے زنا کیا ہے، تو نے چوری کی ہے۔ اور وہ کہہ رہی تھی کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے۔ بچے کی ماں دودھ پلاتے ہوئے کہا کہ اے اللہ! میرے بچے کو اس جیسا نہ بنانا۔ اس بچے نے پستان کو چھوڑ کر اسے دیکھا اور کہا اے اللہ! مجھے اِسی جیسا بنانا۔ پھر اس نے اپنی ماں کے ساتھ بات چیت کی۔ اس عورت نے کہا کہ میرا اس آدمی پر گزر ہوا یا اس نے کہا کہ یہ خوش حال آدمی میرے پاس سے گزرا تو میں نے کہا ’’اے اللہ! میرے بیٹے کو بھی اُسی جیسا بنادے۔ اس پر تم نے کہا اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ بنا۔ بچے نے کہا: ہاں، کیوں کہ وہ شخص ظالم اور سرکش تھا۔ میں نے اللہ تعالی سے دعا کی وہ مجھے اس جیسا نہ بنائے۔ جب کہ عورت کے بارے میں لوگ کہہ رہے تھے کہ تم نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ اور وہ کہہ رہی تھی کہ میرے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ اے اللہ! مجھے اُسی جیسا بنا۔ یعنی مجھے زنا سے اور چوری سے پاک رکھ اس حال میں کہ میرا سب کچھ اللہ کے حوالے ہے۔ باندی کے اس قول میں یہی بات تھی کہ میرے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان تجالوج ہندوستانی ویتنامی ہاؤسا
ترجمہ دیکھیں
مزید ۔ ۔ ۔