عن أبي عبيد، مولى ابن أزهر، قال: شهدت العيد مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، فقال: هذان يومان نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيامهما: يوم فطركم من صيامكم، واليوم الآخر تأكلون فيه من نُسُكِكُم.
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابو عبید جو ابن ازہرکے آزاد کردہ غلام ہیں بیان کرتے ہیں کہ میں نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کےساتھ نمازعید ادا کی۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ دو دن ایسے ہیں جن میں روزہ رکھنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ ایک ( رمضان کے ) روزوں کے بعد افطار کا دن (عید الفطر) اور دوسرا وہ دن جس میں تم اپنی قربانی کا گوشت کھاتے ہو (یعنی عید الاضحی کا دن)۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
اللہ عزّ و جلّ نے مسلمانوں کے لیے دو دن بطورِ عید مقرر کیے ہیں جن میں سے ہر ایک کا کسی نہ کسی دینی شعار کے ساتھ تعلق ہے۔ عید الفطر کا تعلق روزوں کے مکمل ہونے کے ساتھ ہے۔ چنانچہ مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اس دن اللہ عز و جل کا روزے کی نعمت کے اتمام پر شکر بجا لاتے ہوئے اور روزوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے جس افطار ( روزہ نہ رکھنے ) کا حکم دیا اس نعمت کے اظہار کے لیے روزہ نہ رکھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ ”وه چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو“۔ جب کہ دوسرا دن عید الاضحی کا دن ہے جو کہ بطور ہدی و قربانی ذبح کیے جانے والے جانوروں سے متعلق ہے۔ چنانچہ اس دن لوگ بطورِ ہدی اور بطورِ قربانی جانوروں کو ذبح کرتے ہیں اور ان کا گوشت کھا کر اللہ کے شعائر کا اظہار کرتے ہیں۔ چنانچہ مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ان دونوں ایام میں روزہ نہ رکھے۔ ان میں روزہ رکھنا اس کے لیے حرام ہے۔