عن عبد الله بن عَمْرِو بن العاص رضي الله عنهما قال: «أُخبِر رسول الله صلى الله عليه وسلم أني أقول: والله لَأَصُومَنَّ النهار، وَلَأَقُومَنَّ الليل مَا عِشْتُ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أنت الذي قلتَ ذلك؟ فقلتُ له: قد قُلتُه -بأبي أنت وأمي-. فقال: فإنك لا تستطيع ذلك، فصُم وأفطِر، وَقُمْ وَنَمْ ، الشَّهْرِ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنَّ الحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وذلك مثل صيام الدَّهْرِ. قلت: فإني أُطِيقُ أفضل من ذلك. قال: فصم يوما وأَفطر يومين. قلت: أُطِيقُ أفضل من ذلك. قال: فصم يوما وأفطر يوما، فذلك مثل صيام داود، وهو أفضل الصيام. فقلت: إني أُطِيقُ أفضل من ذلك. قال: لا أفضل من ذلك»، وفي رواية: «لا صوم فوق صوم أخي داود -شَطْرَ الدَّهَرِ-، صم يوما وأفطر يوما».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تک میری یہ بات پہنچائی گئی کہ اللہ کی قسم! میں زندگی بھر دن میں روزے رکھوں گا اور ساری رات عبادت کروں گا، لہٰذا آپ ﷺ نے کہا: تم ہی ہو وہ شخص، جس نے یہ بات کہی ہے؟، میں نے آپ ﷺ کو جواب دیتے ہوئے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، ہاں میں نے یہ کہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لیکن تیرے اندر اس کی طاقت نہیں، اس لیے روزہ بھی رکھ اور افطار بھی کر۔ رات کو قیام بھی کر اور سو بھی جا اور مہینے میں تین دن کے روزے رکھا کر؛ کیوںکہ نیکیوں کا بدلہ دس گنا ملتا ہے۔ اس طرح یہ ساری عمر کا روزہ ہو جائے گا۔ میں نے کہا کہ :میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: پھر ایک دن روزہ رکھا کر اور دو دن کے لیے روزے چھوڑ دیا کر۔ میں نے پھر کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا، ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن افطار کر کہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ایسا ہی تھا اور روزے کا یہ سب سے افضل طریقہ ہے۔ میں نے اب بھی وہی کہا کہ میرے پاس اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے، لیکن اس مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے افضل کوئی روزہ نہیں ہے۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: آپ نے فرمایا: داؤد علیہ السلام کے روزے -آدھے سال کے روزے رکھنا-سے زیادہ روزہ جائز نہیں۔ ایک دن کا روزہ رکھ اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کر۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
نبی ﷺ کو یہ اطلاع پہنچائی گئی کہ عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما نے اس بات کی قسم کھائی ہے کہ وہ ہمیشہ روزے سے رہیں گے؛ کبھی بے روزہ نہ رہیں گے اور ہمیشہ قیام اللیل ہی کریں گے؛ کبھی نہیں سوئیں گے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا: کیا تم نے ہی یہ بات کہی ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ عمل تمھارے لیے باعث مشقت ہوجائے گا اور تم اس کو برداشت نہ کرسکو گے۔ آپ ﷺ نے انھیں آرام اور عبادت دونوں ہی کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی کہ روزہ بھی رکھیں اور نہ بھی رکھیں، قیام اللیل بھی کریں اور سوئیں بھی اور ہر ماہ تین روزے ہی رکھیں؛ تاکہ انھیں سال بھر روز رہ کھنے کا اجر وثواب حاصل ہوجائے۔ لیکن انھوں نے عرض کیا کہ وہ اس سے زیادہ روزے رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں اور وہ آپ ﷺ سے مزید روزوں کی درخواست کرتے رہے، یہاں تک کہ روزہ رکھنے کے افضل ترین طریقے پر یہ بات موقوف ہوگئی۔ روزہ رکھنے کا افضل ترین طریقہ داؤد علیہ السلام کا تھا؛ کیوں کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور دوسرے دن کا روزہ چھوڑ دیتے تھے۔ تاہم خیر و بھلائی کی شدید خواہش کی بنا پر صحابی رسول ﷺ نے مزید روزوں کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے افضل کوئی روزہ نہیں ہے۔