زمره: . . .
+ -
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ:

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي، وَأَنَا مَعَهُ حِينَ يَذْكُرُنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُ، وَإِنِ اقْتَرَبَ إِلَيَّ شِبْرًا، تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنِ اقْتَرَبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا، اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح مسلم: 2675]
المزيــد ...

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق کام کرتا ہوں اور ميں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے جی میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی مجلس میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں ایسی مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں جو اس سے بہتر ہوتی ہے۔ جو ایک بالشت میرے قریب آتا ہے میں ایک ہاتھ اُس کے قریب آتا ہوں، جو ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے میں دو ہاتھ اُس کے قریب آتا ہوں، اور جب وہ ميری طرف چلتا ہوا آتا ہے میں اس کی طرف دوڑتا ہوا آتا ہوں“۔

الملاحظة
The translation is off. It doesn't mention that Allah taala is happy to see tawbah
النص المقترح لا يوجد...

[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح مسلم - 2675]

شرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ اللہ تعالی حدیث قدسی میں فرماتا ہے:
میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق کام کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ میرا برتاؤ ویسا ہی رہتا ہے، جیسا وہ میرے بارے میں سوچتا ہے۔ اچھا تو اچھا اور برا تو برا۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، تو میری رحمت، توفیق، تائید، ہدایت اور حمایت اس کے ساتھ رہتی ہے۔
اگر وہ تنہائی میں میری تسبیح وتہلیل وغیرہ کرتا ہے اور اس طرح مجھے یاد کرتا ہے، تو میں اسے تنہائی میں یاد کرتا ہوں۔
اگر وہ مجھ کو کسی جماعت کے درمیان یاد کرتا ہے، تو میں اسے کہیں بڑی اور مقدس جماعت کے درمیان یاد کرتا ہوں۔
جو اللہ کی جانب ایک بالشت کے برابر بڑھتا ہے، اللہ اس کی جانب ایک ہاتھ کے برابر بڑھتا ہے۔
جو اللہ کی جانب ایک ہاتھ بڑھتا ہے، اللہ اس کی جانب دو ہاتھ بڑھتا ہے۔
جو اللہ کی جانب چل کر آتا ہے، اللہ اس کی جانب دوڑ کر جاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ جب بندہ اپنے رب کی جانب اس کی اطاعت گزاری اور بندگی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، تو اللہ تعالی اسے اپنے سے اور قریب کر لیتا ہے، کیوں کہ بدلہ عمل کی جنس سے ہی ملتا ہے۔
مومن کی بندگی جتنی مکمل ہوگی، اللہ اس سے اتنا ہی قریب ہوگا۔ اللہ کی نوازش اور اس کا ثواب ہر اعتبار سے بندے کے عمل اور کد وکاوش سے کہیں بڑھ کر ہے۔
ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ سے اچھا گمان رکھے، سر گرم عمل رہے اور اس کا یہ جذبۂ عمل اللہ سے ملنے تک فزوں تر ہوتا چلا جائے۔

حدیث کے کچھ فوائد

  1. یہ حدیث ان حدیثوں میں سے ایک ہے، جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب سے روایت کیا ہے۔ اس طرح کی حدیث کو حدیث قدسی یا حدیث الہی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد وہ حدیث ہے، جس کے لفظ اور معنی دونوں اللہ کے ہوں۔ البتہ اس کے اندر قرآن کی امتیازی خصوصیات، جیسے اس کی تلاوت کا عبادت ہونا، اس کے لیے طہارت حاصل کرنا اور اس کے ذریعہ تحدی وچیلینج دیا جانا اوراس کا معجزہ ہونا وغیرہ نہیں پائی جاتیں۔
  2. آجری کہتے ہيں: "اہل حق اللہ عز و جل کے وہی اوصاف بیان کرتے ہیں جو خود اللہ تبارک و تعالی اپنے لیے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ کے لیے بیان کیے ہیں۔ یہی اتباع سنت کے علم بردار اور بدعت سے گریزاں رہنے والے علما کا مسلک ہے۔" اہل سنت اللہ تبارک و تعالی کے انھیں اسما وصفات کو ثابت کرتے ہیں جنھیں خود اللہ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے، بغير كسی تحریف، تعطلیل، تکییف اور تمثیل کے۔ اللہ کی ذات سے ان اسما وصفات کی نفی کرتے ہیں، جن کی نفی اس نے خود کی ہے اور جن اسما وصفات کے بارے میں نفی واثبات وارد نہ ہوا ہو، ان کے بارے میں خاموش رہتے ہيں۔ اللہ تعالی نے کہا: "اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے"۔
  3. اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کے ساتھ ساتھ عمل بھی ضروری ہے۔ حسن بصری کہتے ہيں: ایک مومن اپنے رب سے حسن ظن رکھتا ہے اور اچھا عمل کرتا ہے، جب کہ ایک فاجر اپنے رب سے بدظن رہتا اور برا عمل کرتا ہے۔
  4. قرطبی کہتے ہیں: کچھ لوگ کہتے ہیں: "میں اپنے بندے کے گمان کے قریب ہوں" سے مراد دعا کے وقت نوازش کا گمان، توبہ کے وقت قبولیت کا گمان، مغفرت طلب کرتے وقت بخشش کا گمان اور شروط کو پورا کرتے ہوئے عبادت کرتے وقت اجر وثواب کا گمان جو اللہ کے برحق وعدہ کے مطابق ہے۔ اس لیے بندے کو اپنی ذمے داریاں پورے تن من سے اس یقین کے ساتھ ادا کرنی چاہیے کہ اللہ قبول کرے گا اور بخشش عطا کرے گا۔ کیوں کہ یہ اس کا وعدہ ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے۔ اس کے بر خلاف اگر کسی کا اعتقاد ہو یا اسے گمان ہو کہ اللہ اس کی عبادت قبول نہیں کرے گا یا اس سے اس کو کوئی فائدہ نہيں ہوگا تو یہ اللہ کی رحمت سے مایوسی ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے۔ اس پر مرنے والے انسان کے ساتھ اس کے ظن کے مطابق ہی برتاؤ کیا جائے گا، جیسا کہ اس حدیث کے بعض طرق میں آیا ہے : "لہذا میرا بندہ میرے بارے میں جو گمان چاہے رکھے۔" وہ کہتے ہیں: جہاں (کسی گناہ پر اصرار کے ساتھ) مغفرت کا گمان رکھنے کی بات ہے، تو یہ محض جہالت اور دھوکہ ہے۔
  5. زبان اور دل دونوں سے زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے کی ترغیب۔ انسان کے دل میں اللہ کا خوف جاگزیں ہو، اس کی عظمت اور حق کی یاد زندہ ہو، اس سے امید وابستہ رہے، عظمت ومحبت رہے، حسن ظن رہے، خالص اسی کے لیے عمل کرنے کا جذبہ موجزن رہے اور زبان پر سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا ورد جاری ہے۔
  6. ابن ابو جمرہ کہتے ہيں: جو خوف کے عالم میں اللہ کو یاد کرے گا، اسے امن و سکون ملے گا اور جو وحشت کے عالم میں اسے یاد کرے گا، اسے انسیت ملے گی۔
  7. شِبر: اسے اردو میں بالشت کہتے ہیں۔ اسے مراد ہے ہتھیلی کو پھیلا دینے کے بعد خنصر کے کنارے سے انگوٹھے کے کنارے تک کی دوری۔
  8. ذراع : درمیان انگلی کے کنارے سے کہنی کی ہڈی تک کی مسافت۔
  9. باع : دونوں ہاتھوں، بازووں اور سینے کی چوڑائی کی مسافت۔ سب ملاکر کل چار ہاتھ ہوا کرتے ہيں۔
ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تمل تھائی پشتو آسامی السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية النيبالية ภาษาโยรูบา الليتوانية الدرية الصربية الرومانية المجرية الموري ภาษามาลากาซี ภาษากันนาดา الولوف الأوكرانية الجورجية المقدونية الخميرية الماراثية
ترجمہ دیکھیں
زمرے
  • . .
  • .
مزید ۔ ۔ ۔