عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما : أن رجالا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أرُوا ليلة القدر في المنام في السبع الأواخر. فقال النبي صلى الله عليه وسلم :« أرى رؤياكم قد تواطأت في السبع الأواخر، فمن كان مُتحرِّيها فليتحرّها في السبع الأواخر».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے کچھ صحابہ کو خواب میں دکھائی دیا کہ شبِ قدر (رمضان کی) آخری سات تاریخوں میں ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب آخری سات تاریخوں پر متفق ہو گئے ہیں۔اس لیے جسے اس (شب قدر) کی تلاش ہو وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے“
[صحیح] - [متفق علیہ]
شب قدر عظمت، شرف ومنزلت والی رات ہے۔ اس میں نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور گناہ معاف ہوتے ہیں اور مختلف امور کے فیصلہ کیے جاتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جب اس رات کی فضیلت اور اس کے علو مرتبت کا علم ہوا تو وہ اس کے وقت کو جاننے میں لگ گئے تاہم اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے ساتھ اپنی حکمت و رحمت کی بدولت اسے ان سے مخفی رکھا تاکہ وہ راتوں میں اسے زیادہ سے زیادہ تلاش کریں اور یوں زیادہ سے زیادہ عبادت کر سکیں جس کا نفع بالآخر انہی کو ہی ہو گا۔ صحابہ کرام کو خواب میں یہ رات دکھائی دیا کرتی تھی اور ان کے خوابوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ یہ رمضان کے آخری سات راتوں میں ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے انہیں فرمایا: ”میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ رات آخری سات راتوں میں ہے، چنانچہ جو اسے تلاش کرنا چاہتا ہو وہ اسے آخری سات راتوں میں تلاش کرے“۔ خاص طور پر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں کیونکہ زیادہ امید یہی ہے کہ وہ انہی میں سے کوئی ہو گی۔ چنانچہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ رمضان مبارک (میں عبادت) کا اہتمام کرے، خصوصاً آخری عشرے میں اور ستائیسویں رات کا سب سے زیادہ اہتمام کرے۔