عن حذيفة بن اليمان رضي الله عنهما وحفصة بنت عمر بن الخطاب رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْقُدَ، وَضَعَ يَدَهُ اليُمْنَى تَحْتَ خَدِّهِ، ثُمَّ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ قِني عذابك يوم تبعث عبادك». وفي رواية: أنه كان يقوله ثلاث مرات.
[صحيح دون قوله: "ثلاث مرات"] - [حديث حذيفة: رواه التُرمذي وأحمد.
حديث حفصة: رواه أبو داود والنسائي في الكبرى وأحمد.
والزيادة في حديث حفصة]
المزيــد ...
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حفصہ بنت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سونے کا ارادہ فرماتے تو اپنا داہنا ہاتھ اپنے گال مبارک کے نیچے رکھتے اور پھر کہتے: ”اللَّهُمَّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ“ اے اللہ! مجھے اس دن اپنے عذاب سے محفوظ رکھنا جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ایسا تین دفعہ کہا کرتے تھے۔
[صحیح] - [اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
اس حدیث میں نبی ﷺ کی سنتوں میں سے ایک فعلی اور قولی سنت کا بیان ہے اور دونوں سنتیں نیند سے متعلق سنتوں میں سے ہیں۔فعلی سنت: اس سے مراد وہ ہیئت ہے جس پر نبی ﷺ سویا کرتے تھے۔حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نبی ﷺ کے سونے کے انداز کے بارے میں بتایا کہ آپ ﷺ جب سونے کا ارادہ فرماتے تو اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار مبارک کے نیچے رکھ لیا کرتے تھے۔ اس میں آپ ﷺ کے دائیں پہلو پر سونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ جب اپنا دایاں ہاتھ اپنے رخسار تلے رکھتے تھے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ لامحالہ اپنے دائیں پہلو پر سوتے تھے اور دیگر روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں(کہ آپ ﷺ دائیں پہلو پر سویا کرتے تھے)۔ تاہم اس حدیث میں ایک بات زائد ہے کہ آپ ﷺ رخسار تلے اپنا ہاتھ رکھا کرتے تھے۔چنانچہ جو شخص ایسا کرسکتا ہو وہ آپ ﷺ کی پیروی میں ایسا کرے اور جو شخص دائیں پہلو کے بل لیٹنے پر اکتفاء کر لے تو یہ بھی اس کے لیے کافی ہو گا کیونکہ بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ ﷺ اپنے دائیں پہلو پر سویا کرتے تھے اور ان میں رخسار کے نیچے ہاتھ رکھنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ شاید نبی ﷺ ایسا بعض اوقات کیا کرتے تھے۔ اس کی طرف اشارہ اس بات سے ہوتا ہے کہ کچھ صحابہ نے اسے ذکر کیا ہے اور بعض نے اسے ذکر نہیں کیا۔ تاہم تمام روایات کا دائیں پہلو کے بل سونے پر اتفاق ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی عین سنت ہے۔ ”پھر آپ ﷺ فرماتے“ یہاں ثم کا لفظ ترتیب اور تراخی پر دلالت کرتا ہے اور یہ اس شخص کی حالت سے مناسبت رکھتا ہے جس کا سونے کا ارادہ ہو۔ ایسا شخص پہلے اپنے داہنے پہلو پر لیٹے گا اور اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں گال کے نیچے رکھے گا پھر اس کے بعد دعا پڑھے گا۔ یہ شرط نہیں ہے کہ انسان لیٹنے کے فورا بعد یہ دعا کرے کیونکہ ”ثم“ کا لفظ تاخیر پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ اگر انسان اپنی بیوی کے ساتھ بات چیت کرتا رہے اور پھر اس کے بعد دعا پڑھے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ”اللَّهُمَّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ“ یعنی قیامت کے دن مجھے عذاب سے محفوظ رکھنا۔ لفظ ”قنی“ میں اللہ کے فضل و احسان کی بدولت حفاظت کا معنی ہے یا یہ لفظ بندے کو ایسے فعل کی توفیق دینے پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے اور عذاب سے نجات مل جاتی ہے۔ کیونکہ اصل عموم ہی ہوتا ہے اور تخصیص کی طرف صرف اسی وقت جایا جاتا ہے جب کوئی دلیل ہو اور جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں یہ لفظ دونوں ہی معانی کا احاطہ کرتا ہے۔ " عذابك "۔ یہ عذاب کی تمام اقسام کو شامل ہے۔ اس میں جہنم کا عذاب بدرجہ اول داخل ہے۔ تاہم اس دن کو اللہ نے القارعة، الصاخة، الطامة اور القیامۃ جیسے ناموں سے موسوم کیا ہے۔ اور یہ بات اس کی ہولناکی اور سختی پر دلالت کرتی ہے چنانچہ مناسب یہ ہے کہ اللہ سے اس دن کے عذاب سے نجات کی دعا کی جائے۔ ”عذابك“ اس میں نبی ﷺ نے عذاب کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی تاکہ اس سے اس کی ہولناکی، شدت او عظمت کی نشاندہی ہو سکے۔ اسی طرح اس میں سپردگی کا معنی بھی ہے کیونکہ بندوں میں صرف اللہ ہی کا اختیارِ تصرف چلتا ہے اور اس عذاب پر اس غالب و مالک کا تصرف ہے۔ لفظ دونوں ہی معانی (عذاب کی سختی اورسپردگی) کو شامل ہے۔ اس لطیف مناسبت پر غور کریں جو نیند جو کہ موت کی بہن یا چھوٹی موت ہے اور موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے مابین ہے۔ حدیث میں شے (موت) اور اس کے تابع (بعث بعد الموت) کے مابین بہت ہی لطیف اور باریک قسم کی مناسبت کا بیان ہے اور یہ بات نبی ﷺ کے الفاظ کی عظمت و جمال کی دلیل ہے۔