أَنَّ تَلْبِيَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَبَّيْكَ اللهُمَّ، لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ» قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَزِيدُ فِيهَا: لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ، لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ.
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح مسلم: 1184]
المزيــد ...
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں:
رسول اللہ ﷺ کے تلبیہ کے الفاظ یہ ہوا کرتے تھے: ’’اے اللہ ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بلاشبہ ہر تعریف اور نعمت تیری ہے اور تیری ہی بادشاہت ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس میں ان الفاظ کا اضافہ کرلیا کرتے تھے:’’میں حاضر ہوں، میں تیری خدمت میں موجود ہوں، میری سعادت ہے تیرے پاس آنے میں، بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، میں حاضر ہوں اور رغبت تیری ہی طرف ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے۔‘‘
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح مسلم - 1184]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب حج یا عمرہ میں داخل ہونا چاہتے، تو یہ تلبیہ کہتے: (لبيك اللهم لبيك) اے اللہ! میں اخلاص، توحید اور حج وغیرہ کی طرف تیرى ہر دعوت کو قبول کرنے کے بعد پھر لازمی طور پر اس کو قبول کرتا ہوں۔ (لبيك لا شريك لك لبيك) کیوں کہ تنہا تو ہی عبادت کا حق دار ہے۔ تیری ربوبیت، الوہیت اور اسما وصفات میں تیرا کوئی شریک نہيں ہے۔ (إن الحمد) بلاشبہ حمد، شکر اور ثنا تیرے ہی لیے ہے (والنعمة) اور نعمت تیری ہی جانب سے ہے اور تو ہى اس کو عطا کرنے والا ہے (لك) ان تمام چیزوں کو ہر حال میں تیرے ہی لیے صرف کیا جائے گا۔ (والملك) بادشاہت بھی تیری ہی ہے۔ (لا شريك لك) تیرا کوئی شریک نہیں ہے، لہذا یہ ساری چيزیں تیرے ہی لیے صرف ہوں گی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنمہا اس میں ان الفاظ کا اضافہ فرماتے تھے: (لبيك لبيك وسعديك) میں حاضر ہوں تیری خدمت میں۔ میں حاضر ہوں تیری خدمت میں۔ مجھے بار بار سعادت سے بہرہ ور کر۔ (والخير بيديك) ساری کی ساری خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تیرے فضل سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ (لبيك والرغباء إليك) میں حاضر ہوں تیری خدمت میں۔ طلب اور سوال اسی سے کیا جائے گا، جس کے ہاتھ میں خیر ہوتی ہے۔ (والعمل) اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے۔ کیوں کہ تو ہی عبادت کا حق دار ہے۔