فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، عَلَى العَبْدِ وَالحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالكَبِيرِ مِنَ المُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاَةِ.
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 1503]
المزيــد ...
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:
اللہ کے رسول ﷺ نے صدقۂ فطر مسلمان غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے (سب پر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اسے نماز عید کے لیے لوگوں کے نکلنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 1503]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان کے بعد زکاۃ الفطر واجب کی ہے، جس کی مقدار ایک صاع یعنی چار مد ہے۔ مد دراصل ایک متوسط انسان کے لپ بھر کو کہتے ہیں۔ زکاۃ الفطر ہر ایسے مسلمان پر پر واجب ہے، جس کے پاس ایک دن ایک رات کے کھانے سے زائد چیز موجود ہو۔ خواہ وہ آزاد ہو کہ غلام، مرد ہو کہ عورت اور چھوٹا ہو کہ بڑا۔ انسان زکاۃ الفطر اپنی اور اپنے زیر کفالت لوگوں کی جانب سے ادا کرے گا۔ آپ نے ساتھ میں یہ حکم دیا کہ فطرہ لوگوں کے عید کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔