عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ليس على المُسلِم في عبدِهِ وَلاَ فَرَسهِ صَدَقَة».
وفي لفظ: «إلا زكاة الفِطر في الرقيق».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکوۃ (فرض) نہیں ہے“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”مگر غلام میں زکوۃ فطر واجب ہے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
زکوۃ کی بنیاد مساوات اور عدل پر قائم ہے اسی لیے اللہ تعالی نے مالداروں کے ان اموال میں زکوۃ کو واجب کیا جو بڑھنے والے ہوں اور جو بڑھوتری اور اضافے کے لیے تیار کیے گئے ہوں جیسے زمینی پیداوار اور سامان تجارت۔ البتہ وہ اموال جو بڑھتے نہیں ہیں - یعنی وہ اپنے لیے مخصوص اور ذاتی استعمال کے لئے ہوتے ہیں - ان میں صاحب مال پر زکوۃ واجب نہیں ہے۔ کیونکہ یہ مسلمان کی خود اپنی ذات کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔جیسے اس کی سواری مثلا گھوڑا،اونٹ اور گاڑی، اور اسی طرح خدمت کے لئے رکھا گیا غلام، اس کے استعمال میں آنے والے بستر اور برتن۔لیکن اس سے غلام کا صدقہ فطر مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ واجب ہے اگرچہ غلام تجارت کے لئے نہیں ہے، کیوں کہ صدقۂ فطر کا تعلق بدن سے ہوتا ہے نہ کہ مال سے۔