عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: «فَرَضَ رسول الله صلى الله عليه وسلم صَدَقَةَ الفطر -أو قال رمضان- على الذَّكر والأنثى والحُرِّ والمملوك: صاعا من تمر، أو صاعا من شعير، قال: فَعَدَل الناس به نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ، على الصغير والكبير».
وفي لفظ: « أن تُؤدَّى قبل خروج الناس إلى الصلاة»
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے صدقہ فطر یا یہ کہا کہ صدقہ رمضان مرد، عورت، آزاد اور غلام (سب پر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دیا تھا۔ پھر لوگوں نے ہر چھوٹے بڑے کے لیے آدھا صاع گیہوں اس کے برابر قرار دے لیا۔
اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اِسے لوگوں کے نمازِ عید کے لیے نکلنے سے پہلے پہلے ادا کر دینا چاہیے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
نبی ﷺ نے ان تمام بڑے چھوٹے، مرد و عورت اور آزاد و غلام مسلمانوں پر جن کے پاس اس دن اپنے استعمال سے ایک صاع کی مقدار کے برابر زائد اناج ہو فرض کیا کہ وہ ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو بطورِ صدقہ فطر ادا کریں۔ تاکہ یہ مال دار مسلمانوں کی طرف سے انفاق و غمخواری کی علامت ہو۔ چنانچہ آپ ﷺ نے صدقۂ فطر کو فرض قرار دیا اور اس کی ادائیگی سربراہ خاندان اور اس کے کفیل کو سونپ دی جس کی زیر نگرانی عورتیں، بچے اور غلام و باندیاں ہوں کہ وہ ان کی طرف سے اسے ادا کرے۔