عَنْ أَبِي نَجِيحٍ العِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي الله عنه قَالَ: وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَوْعِظَةً وَجِلَتْ مِنْهَا القُلُوبُ، وَذَرَفَتْ مِنْهَا العُيُونُ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ! كَأَنَّهَا مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ؛ فَأَوْصِنَا، قَالَ:
«أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ تَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ المَهْدِيينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ؛ فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ».
[صحيح] - [رواه أبو داود والترمذي] - [الأربعون النووية: 28]
المزيــد ...
ابو نجیح عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں: (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک موثر وعظ فرمایا جس سے دل کانپ اٹھے اور آنکھیں بھر آئیں۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ وعظ تو گویا کسی الوداع کہنے والے کے وعظ کی طرح ہے۔ لہٰذا آپ ہمیں وصیت فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور (امیر کی بات) سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام امیر بن جائے۔ (یاد رکھو!)تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ یقینا بہت اختلاف دیکھے گا۔ چنانچہ تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنا، انہیں دانتوں سے خوب جکڑ لینا اور دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔“
[صحیح] - [رواه أبو داود والترمذي] - [الأربعون النووية - 28]
ایک دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے وعظ فرمایا۔ وعظ اتنا متاثر کرنے والا تھا کہ اس سے لوگوں کے دل دہل گئے اور آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ یہ منظر دیکھ کر صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک الوداع کہنے والے کی جانب سے پیش کیا جانے والا خطاب ہے۔ کیوں کہ انھوں نے دیکھا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خطاب کرتے وقت اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیا۔ لہذا انھوں نے آپ سے کچھ وصیت کرنے کو کہا، تاکہ آپ کے بعد اسے مضبوطی سے پکڑے رہیں۔ چنانچہ آپ نے کہا: میں تم اللہ عز و جل کا خوف رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے واجبات کو ادا کرنا اور محرمات سے اجتناب کرنا۔ اسی طرح میں تم کو حکمرانوں کا حکم سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں۔ خواہ تمھارا حکمراں کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی ایک معمولی سے معمولی انسان بھی اگر تمھارا حکمراں بن جائے، تو تم اس سے بدک کر دور مت ہٹو۔ تم اس کی بات مانو، تاکہ فتنے سر نہ اٹھا سکیں۔ کیوں کہ تم میں سے جو لوگ زندہ رہيں گے، وہ بہت سارا اختلاف دیکھیں گے۔ پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے اپنے صحابہ کو اس اختلاف سے نکلنے کا راستہ بتایا۔ راستہ یہ ہے کہ آپ کی سنت اور آپ کے بعد مسند خلافت سنبھالنے والے نیک ہدایت یاب خلفا؛ ابو بکر صدیق، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان اور علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہم کی سنت کو مضبوطی سے تھام کر رکھا جائے۔ آپ نے اسے داڑھوں سے پکڑنے کا حکم دیا۔ یعنی ہر حال میں سنت کو لازم پکڑا جائے اور اس پر قائم رہا جائے۔ اس کے بعد آپ نے ان کو دین کے نام پر سامنے آنے والی نت نئی چیزوں یعنی بدعات و محدثات سے خبردار کیا۔ کیوں کہ دین کے نام پر سامنے آنے والی ہر نئی چیز گمراہی ہے۔