عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [المؤمنون: 51] وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} [البقرة: 172] ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ: يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟».
[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 1015]
المزيــد ...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
”بے شک اللہ پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے۔ اللہ نے اپنے مومن بندوں کو اسی چیز کا حکم دیا ہے، جس کا حکم اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: ”يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا“ [سورہ مومنون : 51] (اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔) نیز ارشاد فرمایا: ”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ“ [سورہ بقرہ : 172] (اے ایمان والو! جو پاکیزه چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ، پیو۔) پھر آپ ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر پر نکلا ہوا ہو، اس کے بال بکھرے ہوئے اور جسم غبار آلود ہو۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا مانگتے ہوئے کہے: ”اے میرے رب! اے میرے رب!“ حالاں کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام اور حرام ہی سے اس کی پرورش ہوئی ہو۔ ایسے میں بھلا اس کی دعا کہاں سے قبول ہوگی؟“
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح مسلم - 1015]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ بلاشبہ اللہ پاک ہے، مقدس ہے، کمیوں اور عیوب سے منزہ ہے اور کمالات سے متصف ہے۔ وہ انہی اعمال، اقوال اور اعتقادات کو قبول کرتا ہے، جو پاک ہوں اور جنھیں صرف اللہ کی رضاجوئی کے لیے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کے مطابق کیا جائے۔ اللہ کا تقرب صرف اسی طرح کی عبادتوں کے ذریعے حاصل کیا جانا چاہیے۔ یاد رہے کہ اعمال کی پاکیزگی کا ایک اہم ترین ذریعہ حلال کھانا کھانا ہے۔ حلال کھانا کھانے سے انسان کا عمل پاک صاف ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح اللہ نے رسولوں کو حلال روزی کھانے اور نیک عمل کرنے کا حکم دیا ہے، اسی طرح اہل ایمان کو بھی دیا ہے۔ ارشاد باری ہے : ”يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا“ [سورہ مومنون : 51] (اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔) نیز ارشاد فرمایا: ”يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ“ [سورہ بقرہ : 172] (اے ایمان والو! جو پاکیزه چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انھیں کھاؤ۔)
پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام غذا کھانے سے خبردار فرما دیا۔ کیوں کہ حرام غذا عمل کو فاسد کر دیتی ہے اور اسے اللہ کی بارگاہ میں قبول ہونے نہیں دیتی۔ چاہے قبول ہونے کے ظاہری اسباب جتنے بھی پائے جائیں۔ مثلا :
1- کسی نیکی کے کام، جیسے حج، جہاد اور صلہ رحمی وغیرہ کے لیے لمبا سفر کرنا۔
2- انسان کا پریشان حال ہونا۔ جیسے اس کے بال بکھرے ہوئے ہوں اور دھول مٹی لگنے کی وجہ سے اس کے جسم اور کپڑے کا رنگ بدلا ہوا ہو۔ اور یہ سب کچھ اس بات کى دلیل ہے کہ ایسا شخص مضطر ہے۔
3- دعا کے لیے آسمان کی جانب ہاتھ اٹھانا۔
4- اللہ کے اسما کو وسیلہ بنانا اور الحاح و زاری کے ساتھ دعا کرنا۔ مثلا یاب رب یا رب کہنا۔
قبولیت دعا کے مذکورہ اسباب پائے جانے کے باوجود انسان کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ کیوں کہ اس کا کھانا حرام کا، اس کا پینا حرام کا، اس کا لباس حرام کا ہے اور اس کی پرورش حرام غذا سے ہوئی ہے۔ لہذا اس کی دعا قبول ہو ہی نہیں سکتی۔