عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ:
«دَعُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ، إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 7288]
المزيــد ...
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم بھی مجھے چھوڑے رکھو (اور بے جا سوالات نہ کرو)؛ کیونکہ تم سے پہلے کی امتیں (غیر ضروری) سوالات کرنے اور اپنے انبیا سے اختلاف كرنے کی وجہ سے تباہ ہو گئیں۔ چنانچہ جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو تم اس سے دوری اختیار کرو اور جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے طاقت بھر بجا لاؤ۔"
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 7288]
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا ہے کہ شرعی احکام کی تین قسمیں ہيں : وہ احکام جن سے خاموشی برتی گئی ہے، نواہی اور اوامر۔
جہاں تک پہلی قسم یعنی ان احکام کا تعلق ہے، جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے، کوئی حکم وارد نہيں ہوا ہے، تو یاد رہے کہ اشیا میں اصل واجب نہ ہونا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں اس اندیشے کے تحت کہ کہیں وجوب یا تحریم نازل نہ ہو جائے، کسی ایسی چيز کے بارے میں سوال نہ کرنا ضروری تھا، جو سامنے نہ آئی ہو۔ کیوں کہ اللہ نے بندوں پر رحمت کے طور پر اسے چھوڑ رکھا تھا۔ لیکن آپ کی وفات کے بعد سوال اگر فتوی لینے یا دین کے ضروری مسائل کا علم حاصل کرنے کے ارادے سے کیا جائے، تو نہ صرف یہ کہ جائز، بلکہ مامور بہ ہے۔ لیکن سوال اگر تعنت اور تکلف کے طور پر ہو، تو اس حدیث کی رو سے اس طرح کا سوال کرنا منع ہوگا۔ کیوں کہ اس طرح کا سوال بالآخر اسی طرح کی صورت حال پیدا کر سکتی ہے، جو بنی اسرائیل کے لیے پیدا ہوئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ ان کو ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ایسے میں اگر کوئی بھی گائے ذبح کر دیتے، تو حکم کی تعمیل ہو جاتی، لیکن انھوں نے بال کی کھال نکالنی شروع کی، تو ان کے لیے راہ تنگ ہوتی جلی گئی۔
دوسری قسم ممنوعات کی ہے۔ یعنی وہ کام جن کے چھوڑنے والے کو ثواب ملے گا اور کرنے والے کو سزا ہوگی۔ لہذا اس طرح کے کاموں سے دور رہنا ضروری ہوگا۔
تیسری قسم اوامر کی ہے۔ یعنی وہ کام جن کے کرنے والے کو ثواب ملے گا اور چھوڑنے اولے کو سزا۔ اس طرح کے کاموں کو، جب تک ممکن ہو، کرنا ضروری ہے۔