عَنْ أَبَي قَتَادَةَ رضي الله عنه أنَّهُ طَلَبَ غَرِيمًا لَهُ، فَتَوَارَى عَنْهُ ثُمَّ وَجَدَهُ، فَقَالَ: إِنِّي مُعْسِرٌ، فَقَالَ: آللَّهِ؟ قَالَ: آللَّهِ؟ قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُنْجِيَهُ اللهُ مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلْيُنَفِّسْ عَنْ مُعْسِرٍ أَوْ يَضَعْ عَنْهُ».
[صحيح] - [رواه مسلم] - [صحيح مسلم: 1563]
المزيــد ...
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ پنے ایک قرض دار کو ڈھونڈ رہے تھے۔ دراصل وہ چھپتا پھر رہا تھا۔ ایک دن مل گیا، تو کہنے لگا کہ میں تنگ دستی کا شکار ہو چکا ہوں۔ لہذا ابو قتادہ نے پوچھا کہ کیا تم اللہ کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہو کہ تنگ دستی کے شکار ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تنگ دستی کا شکار ہوں۔ چنانچہ ابو قتادہ نے کہا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا:
"جسے یہ اچھا لگتا ہو کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی تنگیوں سے نجات عطا کرے، اسے چاہبے کہ تنگ دست کو مہلت دے یا پھر اس کا (کچھ یا سارا) قرض معاف کر دے۔"
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔] - [صحيح مسلم - 1563]
ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ ایک شخص کی تلاش میں تھے جس نے ان سے قرض لیا تھا اور ان سے چھپتا پھرتا تھا۔ آخر کار انہوں نے اسے ڈھونڈ لیا۔ قرض لینے والے نے کہا : میں تنگ دست ہوں اور میرے پاس تمہارا قرض ادا کرنے کے لیے کوئی مال نہیں ہے۔
ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے اس سے اللہ کی قسم کھانے کو کہا کہ کیا واقعی اس کے پاس کوئی مال نہیں ہے؟
اس نے اللہ کی قسم کھاکر بتایا کہ سچ بول رہا ہے۔
بعد ازاں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ انھوں نے اللہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے ہوئے سنا ہے۔
جسے یہ بات خوش اور مسرور کرتی ہو کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی پریشانیوں، شدتوں اور ہولناکیوں سے نجات دے، وہ تنگدست کے ساتھ نرمی کرے۔ یعنی قرض کی ادائیگی کے لیے مہلت دے، مطالبہ مؤخر کرے یا قرض کا کچھ حصہ یا پورا قرض معاف کر دے۔