عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم : «ما بَال أقْوَام يَرفعون أبْصَارَهم إلى السَّماء في صَلاتهم»، فاشْتَدَّ قوله في ذلك، حتى قال: «لَيَنْتَهُنَّ عن ذلك، أو لَتُخْطَفَنَّ أبْصَارُهم».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ نماز میں اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں؟ آپ ﷺ نے یہ بات بڑی سخت لہجے میں کی، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگ اس سے باز آجائیں ورنہ ان کی آنکھیں اچک لی جائیں گی۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ی کے لیے ضروری ہے کہ حالت نماز میں وہ پر سکون رہے اور خشوع و خضوع اختیار کرے۔ خشوع قلب کی علامت اعضا کا پرسکون ہونا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنی امت کو نماز میں فضولیات اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے سے ڈرایا ہے۔ کیوں کہ یہ نماز کے آداب اور رتبے کی منافی چیزيں ہیں؛ اس لیے کہ نمازی قبلہ رو، اپنے کے سامنے کھڑے ہوکر اس سے محو گفتگو ہوتاہے۔ چنانچہ اس موقع پر آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا اللہ کے ساتھ بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے انذار اور وعید میں مبالغہ سے کام لیتے ہوئے ان لوگوں کو تنبیہ کی ہے، جو دوران نماز اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں کہ اس سے باز آ جائیں، ورنہ ان کی بینائی چھین لی جائے گی اور یہ اتنی تیزی سے ہو گا کہ انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور نعمت بصارت سے محروم ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ یہ سب کچھ نماز کی توہین کی سزا کے طور پر ہو گا۔