عن أُمِّ قَيْسِ بِنْتِ مِحْصَنٍ الأَسَدِيَّة رضي الله عنها «أنَّها أتَت بابن لها صغير لم يأكل الطعام إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأجلسه في حِجْرِه، فبال على ثوبه، فدعا بماء فَنَضَحَه على ثوبه، ولم يَغْسِله».
عن عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِين رضي الله عنها «أنَّ النَّبي صلى الله عليه وسلم أُتِيَ بصبي، فبال على ثوبه، فدعا بماء، فأَتبَعَه إِيَّاه».
وفي رواية: «فَأَتْبَعَه بوله، ولم يَغسِله» .
[صحيح] - [حديث أم قيس الأسدية -رضي الله عنها-: متفق عليه.
حديث عائشة -رضي الله عنها-: الرواية الأولى متفق عليها، الرواية الثانية: رواها مسلم]
المزيــد ...
ام قیس بنت محصن اسدیہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آئیں، جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس نے آپ ﷺ کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا۔ اس پر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور اسے اپنے کپڑے پر چھڑک دیا اور اسے دھویا نہیں۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس ایک بچہ لایا گیا۔ اس نے آپ ﷺ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ اس پر آپ ﷺ نے پانی منگوایا اور اسے اس (پیشاب کی جگہ) پر بہا دیا۔
ایک اور روایت میں ہے: ”آپ ﷺ نے جہاں جہاں اس کا پیشاب لگا تھا، وہاں وہاں پانی ڈال دیا اور کپڑے کو دھویا نہیں“۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺ کے پاس اپنے بچے لے کر آتے تھے، تا کہ انھیں آپ ﷺ کی ذات اور آپ ﷺ کی دعا کی برکت حاصل ہو سکے۔ اپنے لطف و کرم اور اعلی اخلاق کی بنا پر آپ ﷺ ان کے ساتھ خندہ روئی اور نرم خوئی کے ساتھ پیش آتے، جو اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی فطرت میں رکھی تھی۔ چنانچہ ام قیس رضی اللہ عنہا اپنا دودھ پیتا بچہ لے کر آئیں، جس کی عمر ابھی اتنی نہیں ہوئی تھی کہ وہ دودھ کے علاوہ کوئی اور شے بطور غذا استعمال کر سکتا۔ ازراہ شفقت آپ ﷺ نے اسے اپنی گود مبارک میں بٹھا لیا۔ بچے نے آپ ﷺ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا، تو آپ ﷺ نے پانی منگوا کر کپڑے کے پیشاب کی جگہ پر چھڑک دیا اور اسے پوری طرح سے نہیں دھویا۔ یہ حکم (پیشاب کی جگہ چھینٹے مارنا کافی ہے) شیر خوار بچے کے لیے خاص ہے جبکہ شیر خوار بچی کا حکم اس کے برخلاف ہے۔