أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى المِنْبَرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، فَقَالَ: «إِنِّي مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي، مَا يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَيَأْتِي الخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا شَأْنُكَ؟ تُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلاَ يُكَلِّمُكَ؟ فَرَأَيْنَا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ؟ قَالَ: فَمَسَحَ عَنْهُ الرُّحَضَاءَ، فَقَالَ: «أَيْنَ السَّائِلُ؟» وَكَأَنَّهُ حَمِدَهُ، فَقَالَ: «إِنَّهُ لاَ يَأْتِي الخَيْرُ بِالشَّرِّ، وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الخَضْرَاءِ، أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتْ عَيْنَ الشَّمْسِ، فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ، وَرَتَعَتْ، وَإِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَنِعْمَ صَاحِبُ المُسْلِمِ مَا أَعْطَى مِنْهُ المِسْكِينَ وَاليَتِيمَ وَابْنَ السَّبِيلِ - أَوْ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَإِنَّهُ مَنْ يَأْخُذُهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ، كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، وَيَكُونُ شَهِيدًا عَلَيْهِ يَوْمَ القِيَامَةِ».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 1465]
المزيــد ...
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ایک دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر بیٹھے اور ہم بھی آپ کے آس پاس بیٹھ گئے۔ آپ نے فرمایا: "میں اپنے بعد تمھارے بارے میں جن چيزوں سے ڈرتا ہوں، ان میں سے ایک دنیا کی چمک دمک اور دنیائی زیب وزینت کے دروازوں کا کھلنا ہے۔" ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا خیر بھی شر لاتی ہے؟ سوال سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہ گئے۔ لہذا اس شخص سے کہا گیا: بات آخر کیا ہے کہ تم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بات کر رہے ہو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم تم سے بات نہيں کر رہے ہيں؟ اسی درمیان ہم نے دیکھا کہ آپ پر وحی اتر رہی ہے۔ پھر آپ نے پیشانی سے پسینہ پونچھا اور اس کے بعد فرمایا: "سوال کرنے والا کہاں ہے؟" ایک طرح سے آپ نے اس کی تعریف کی اور اس کے بعد فرمایا: "خیر شر نہيں لاتی۔ دراصل جو گھاس موسم بہار میں پیدا ہوتی ہے، وہ جان لے لیتی ہے یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہے۔ البتہ اس جانور کا نقصان نہیں کرتی، جو گھاس کھاتا ہے اور جب اس کی دونوں کوکھ بھر جاتی ہے، تو سورج کی جانب منہ کر کے جگالی کرنا شروع کر دیتا ہے، پھر لید اور پیشاب کرتا ہے اور اس کے بعد دوبارہ کھاتا ہے۔ بے شک یہ مال سر سبز و شیریں ہے۔ ایک مسلمان کے لیے وہ مال بہت اچھا ہے، جو اس نے غریب، یتیم اور مسافر کو دیا۔ -یا پھر اسی طرح کی کوئی بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کہی- لیکن جس نے اسے ناحق طریقے سے حاصل کیا، وہ اس شخص کی طرح ہے، جو کھاتا تو ہے، لیکن آسودہ نہيں ہوتا۔ اس طرح کا مال قیامت کے دن انسان کے خلاف گواہی دے گا"۔
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 1465]
ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر بیٹھ کر اپنے ساتھیوں سے بات کرنے لگے۔ اسی دوران آپ نے فرمایا :
مجھے اپنے بعد تمھارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ تم پر زمین کی برکتوں، دنیا کی رعنائی، اس کی چمک دمک اور اس کے طرح طرح کے ساز و سامانوں، کپڑوں اور کھیتوں کے دروازے کھول دیے جائيں، جو ہیں تو فانی، لیکن لوگ ان کے حسن و جمال پر فخر و مباہات کرتے ہيں۔
ایک شخص نے کہا : دنیا کی رعنائی بھی تو اللہ کی نعمت ہے، تو کیا یہ نعمت نقمت و عقوبت بن سکتی ہے؟
اس کی بات سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم خاموش ہو گئے اور لوگوں کو لگا کہ آپ ناراض ہو گئے ہیں، لہذا لوگ اسے برا بھلا کہنے لگے۔
لیکن کچھ ہی لمحوں میں واضح ہو گیا کہ آپ پر وحی اتر رہی تھی۔ پھر اپنی پیشانی سے پیسنہ پوچھنے لگے اور فرمایا : سوال کرنے والا کہاں ہے؟
اس نے عرض کیا : میں یہاں ہوں۔
چنانچہ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور اس کے بعد فرمایا : حقیقی خیر تو خیر ہی لاتی ہے۔ لیکن یہ رعنائی، جو فتنہ، دنیوی معاملات میں مقابلہ آرائی اور آخرت پر مکمل توجہ مرکوز کرنے سے غفلت کا باعث بنتی ہے، خالص خیر نہیں ہے۔ پھر اس کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا : موسم بہار میں اگنے والی ہریالی جانور کو اپنی جانب کھینچتی ہے اور زيادہ کھانے کے نتیجے میں ہونے والی بیماری کی وجہ سے اس کی جان لے لیتی ہے اور اسے ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہے۔ البتہ جو جانور کھاتا ہے اور جب اس کی دونوں کوکھ بھر جاتی ہے، تو سورج کی جانب منہ کر لیتا ہے، پاخانہ یا پیشاب کرتا ہے، پھر اپنے پیٹ میں موجود گھاس کو منہ میں نکالتا ہے، چباتا ہے، پھر نگل لیتا ہے اور اس کے بعد واپس جاکر کھانے لگتا ہے۔
بلاشبہ یہ مال اس سرسبز اور مزے دار گھاس کی طرح ہے، جو زیادہ کھا لیے جانے کی وجہ سے ہلاک کر دیتی ہے یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہے۔ لیکن جب انسان بہ قدر ضرورت اور بہ قدر کفایت حلال طریقے سے حاصل کیے گئے مال کے تھوڑے حصے پر اکتفا کر لیتا ہے، تو یہ مال اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔ ایک مسلمان کا وہ مال قابل تعریف ہے، جس کے کچھ حصہ وہ مسکین، یتیم اور مسافر کو دیتا ہے۔ جو شخص حق کے ساتھ مال لیتا ہے، اس کے لیے اس میں برکت دی جاتی ہے اور جو ناحق طریقے سے مال لیتا ہے، اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جو کھاتا تو ہے، لیکن آسودہ نہیں ہوتا۔ یہ مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا۔
قال السندي: فلا بد في الخبر من أمرين، أحدهما: تحصيله بوجهه، والثاني: صرفه في مصارفه، وعند انتفاء أحدهما يصير ضررًا... وقد يقال: فيه إشارة إلى الملازمة بين القَيْدَين؛ فلا يوفَّق المرء للصرف في المصارف إلا إذا أخذه بوجهه.قال السندي: فلا بد في الخبر من أمرين