زمره: . . .
+ -
عَنْ أَبٍي سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى المِنْبَرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، فَقَالَ: «إِنِّي مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي، مَا يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَيَأْتِي الخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا شَأْنُكَ؟ تُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلاَ يُكَلِّمُكَ؟ فَرَأَيْنَا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ؟ قَالَ: فَمَسَحَ عَنْهُ الرُّحَضَاءَ، فَقَالَ: «أَيْنَ السَّائِلُ؟» وَكَأَنَّهُ حَمِدَهُ، فَقَالَ: «إِنَّهُ لاَ يَأْتِي الخَيْرُ بِالشَّرِّ، وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الخَضْرَاءِ، أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتْ عَيْنَ الشَّمْسِ، فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ، وَرَتَعَتْ، وَإِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَنِعْمَ صَاحِبُ المُسْلِمِ مَا أَعْطَى مِنْهُ المِسْكِينَ وَاليَتِيمَ وَابْنَ السَّبِيلِ - أَوْ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَإِنَّهُ مَنْ يَأْخُذُهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ، كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، وَيَكُونُ شَهِيدًا عَلَيْهِ يَوْمَ القِيَامَةِ».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 1465]
المزيــد ...

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ایک دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر بیٹھے اور ہم بھی آپ کے آس پاس بیٹھ گئے۔ آپ نے فرمایا: "میں اپنے بعد تمھارے بارے میں جن چيزوں سے ڈرتا ہوں، ان میں سے ایک دنیا کی چمک دمک اور دنیائی زیب وزینت کے دروازوں کا کھلنا ہے۔" ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا خیر بھی شر لاتی ہے؟ سوال سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہ گئے۔ لہذا اس شخص سے کہا گیا: بات آخر کیا ہے کہ تم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بات کر رہے ہو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم تم سے بات نہيں کر رہے ہيں؟ اسی درمیان ہم نے دیکھا کہ آپ پر وحی اتر رہی ہے۔ پھر آپ نے پیشانی سے پسینہ پونچھا اور اس کے بعد فرمایا: "سوال کرنے والا کہاں ہے؟" ایک طرح سے آپ نے اس کی تعریف کی اور اس کے بعد فرمایا: "خیر شر نہيں لاتی۔ دراصل جو گھاس موسم بہار میں پیدا ہوتی ہے، وہ جان لے لیتی ہے یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہے۔ البتہ اس جانور کا نقصان نہیں کرتی، جو گھاس کھاتا ہے اور جب اس کی دونوں کوکھ بھر جاتی ہے، تو سورج کی جانب منہ کر کے جگالی کرنا شروع کر دیتا ہے، پھر لید اور پیشاب کرتا ہے اور اس کے بعد دوبارہ کھاتا ہے۔ بے شک یہ مال سر سبز و شیریں ہے۔ ایک مسلمان کے لیے وہ مال بہت اچھا ہے، جو اس نے غریب، یتیم اور مسافر کو دیا۔ -یا پھر اسی طرح کی کوئی بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کہی- لیکن جس نے اسے ناحق طریقے سے حاصل کیا، وہ اس شخص کی طرح ہے، جو کھاتا تو ہے، لیکن آسودہ نہيں ہوتا۔ اس طرح کا مال قیامت کے دن انسان کے خلاف گواہی دے گا"۔

[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 1465]

شرح

ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر بیٹھ کر اپنے ساتھیوں سے بات کرنے لگے۔ اسی دوران آپ نے فرمایا:
مجھے اپنے بعد تمھارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ تم پر زمین کی برکتوں، دنیا کی رعنائی، اس کی چمک دمک اور اس کے طرح طرح کے ساز و سامان، کپڑوں اور کھیتوں کے دروازے کھول دیے جائيں، جو ہیں تو کچھ ہی دنوں کے لیے لیکن لوگ ان کے حسن وجمال پر فخر و مباہات کرتے ہيں۔
ایک شخص نے کہا: دنیا کی رعنائی بھی تو اللہ کی نعمت ہے، تو کیا یہ نعمت نقمت وعقوبت بن سکتی ہے؟
اس کی بات سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور لوگوں کو لگا کہ آپ ناراض ہو گئے ہیں، لہذا لوگ اسے برا بھلا کہنے لگے۔
لیکن کچھ ہی لمحوں میں واضح ہو گیا کہ آپ پر وحی اتر رہی تھی۔ پھر اپنی پیشانی سے پیسنہ پوچھنے لگے اور فرمایا: سوال کرنے والا کہاں ہے؟
اس نے عرض کیا : میں یہاں ہوں۔
چنانچہ آپ نے اللہ کی حمد وثنا کی اور اس کے بعد فرمایا: حقیقی خیر تو خیر ہی لاتی ہے۔ لیکن یہ رعنائی خالص خیر نہیں ہے کیوں کہ یہ فتنہ، دنیوی معاملات میں مقابلہ آرائی اور آخرت پر مکمل توجہ مرکوز کرنے سے غفلت کا باعث بنتی ہے۔ پھر اس کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا: موسم بہار میں اگنے والی ہریالی جانور کو اپنی جانب کھینچتی ہے اور زيادہ کھانے کے نتیجے میں ہونے والی بیماری کی وجہ سے اس کی جان لے لیتی ہے یا اسے ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہے۔ البتہ جو جانور کھاتا ہے اور جب اس کی دونوں کوکھ بھر جاتی ہیں، تو سورج کی جانب منہ کر لیتا ہے، پاخانہ یا پیشاب کرتا ہے، پھر اپنے پیٹ میں موجود گھاس کو منہ میں نکالتا ہے، چباتا ہے، پھر نگل لیتا ہے اور اس کے بعد واپس جاکر کھانے لگتا ہے۔
بلاشبہ یہ مال اس سر سبز اور مزے دار گھاس کی طرح ہے، جو زیادہ کھا لیے جانے کی وجہ سے ہلاک کر دیتی ہے یا ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہے۔ لیکن جب انسان بہ قدر ضرورت اور بہ قدر کفایت حلال طریقے سے حاصل کیے گئے مال کے تھوڑے حصے پر اکتفا کر لیتا ہے، تو یہ مال اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔ ایک مسلمان کا وہ مال قابل تعریف ہے، جس کا کچھ حصہ وہ مسکین، یتیم اور مسافر کو دیتا ہے۔ جو شخص حق کے ساتھ مال لیتا ہے، اس کے لیے اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور جو ناحق طریقے سے مال لیتا ہے، اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے، جو کھاتا تو ہے، لیکن آسودہ نہیں ہوتا۔ یہ مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا۔

حدیث کے کچھ فوائد

  1. نووی کہتے ہیں: اس حدیث میں اس شخص کی فضیلت بیان کی گئی ہے، جو صحیح طریقے سے مال حاصل کرے اور اچھے کاموں میں خرچ کرے۔
  2. اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کا حال بیان کیا ہے اور اس کے لیے دنیا کی رعنائیوں اور فتنے کے دروازے کھول دیے جانے کی پیشین گوئی کی ہے۔
  3. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ آپ مفہوم و مراد کو سمجھانے کے لیے مثال بیان کرتے تھے۔
  4. صدقہ کرنے اور نیکی کے کاموں ميں مال خرچ کرنے کی ترغیب اور مال کو روکے رکھنے کی ممانعت۔
  5. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ "إنه لا يأتي الخير بالشر" سے معلوم ہوتا ہے کہ رزق، خواہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو، خیر کے زمرے میں داخل ہے۔ اس میں شر داخل اس وقت ہوتا ہے جب اسے مستحق لوگوں پر خرچ نہیں کیا جاتا اور غیر مشروع کاموں میں لٹایا جاتا ہے۔ جس چیز کے بارے میں اللہ کا فیصلہ خیر ہونے کا ہے، وہ شر نہيں ہو سکتی اور جس چیز کے بارے میں اللہ کا فیصلہ شر ہونے کا ہے، وہ خیر نہيں ہو سکتی۔ البتہ ڈر اس بات کا ہے کہ جسے خیر دی گئی ہو، وہ اس کے تصرف میں شر کو شامل کر لے۔
  6. جب غور وفکر کی ضرورت ہو تو جواب دینے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
  7. طیبی کہتے ہيں: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور چار طرح کے ہوا کرتے ہیں: ایک وہ جانور جو خوب لطف اندوز ہوتے ہوئے مست ومگن ہوکر کھاتا ہی چلا جائے، تا آں کہ اس کی پسلیاں پھول جائيں، لیکن اس کے باوجود نہ رکے اور ہلاک ہو جائے۔ دوسرا وہ جانور جو مست ومگن ہو کر کھائے اور بیمار ہو جائے۔ پھر جب بیماری بڑھ جائے تو بچنے کی کچھ تدبیر کرے، لیکن دیر ہو جانے کی وجہ سے بچ نہ سکے۔ تیسرا وہ جانور جو کھائے تو مست ومگن ہوکر، لیکن اس سے ہونے والے نقصان کے ازالے کی کوشش شروع کر دے، چنانچہ کھایا ہوا سب کچھ ہضم ہو جائے اور بچ جائے۔ چوتھا وہ جانور جو اعتدال کے ساتھ کھائے۔ بس اتنا کھائے کہ بھوک مٹ جائے اور توانائی برقرار رہے۔ پہلی مثال کافر کی ہے۔ دوسری مثال ایسے نافرمان کی ہے، جو گناہ چھوڑ کر توبہ اس وقت کرے، جب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہو۔ تیسری مثال ایسے شخص کی ہے، جس سے گناہ تو ہو جائے، لیکن فورا توبہ کر لے۔ ایسے شخص کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ چوتھی مثال ایسے زاہد اور قانع شخص کی ہے، جس کی توجہ آخرت پر مرکوز رہے۔
  8. ابن منیر کہتے ہيں: اس حدیث میں تشبیہات کے کئی خوب صورت پہلو موجود ہیں: پہلی تشبیہ: مال اور اس کی افزائش کو پودے اور اس کے ظہور سے تشبیہ دی گئی ہے۔ دوسری تشبیہ: دولت کمانے اور ظاہری اسباب میں کھو جانے والے شخص کو اس جانور سے تشبیہ دی گئی ہے جو گھاس کھانے میں منہمک ہو۔ تیسری تشبیہ: زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے اور اسے ذخیرہ کرنے کی تشبیہ کھانے اور پیٹ بھرنے کے لالچ سےدی گئی ہے۔ چوتھی تشبیہ: مال سے نکلنے والے حصے کی، باوجود اس کے کہ لوگوں کے دلوں میں اس کی بڑی وقعت ہے، جس کی وجہ سے اسے نکالنے میں حد درجہ بخل سے کام لیتے ہيں، اس گوبر سے تشبیہ دی گئی ہے جو جانور خارج کرتا ہے۔ اس میں شرعی طور پر اس کی ناپسندیدگی کی طرف خوبصورت اشارہ ہے۔ پانچویں تشبیہ: مال جمع کرنے اور اسے سمیٹنے سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے کی تشبیہ بکری سے دی گئی ہے، جب وہ آرام کرنے لگے اور سورج کی جانب منہ کر کے اپنا پہلو زمین پر ٹکا دے۔ یہ بکری کی سب سے سکون اور آرام والی حالت ہوا کرتی ہے۔ اس میں اس کے مفادات کے ادراک کی جانب اشارہ ہے۔ چھٹی تشبیہ : مال جمع کرنے اور اسے خرچ نہ کرنے والے کی موت کی تشبیہ اس جانور کی موت سے دی گئی ہے، جو نقصان دہ چيز کو دور کرنے سے غافل رہے۔ ساتویں تشبیہ: مال کی تشبیہ اس ساتھی سے دی گئی ہے، جس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ دشمن نہ بن جائے، کیونکہ مال کی حقیقت یہ ہے کہ اس کی محبت کے پیش نظر اسے محفوظ جگہ میں پوری حفاظت کے ساتھ رکھا جائے اور یہ جذبہ اسے اس کے حق دار کو دینے سے روکتا ہے، جو انسان کے لیے سزا کا باعث بنتا ہے۔ آٹھویں تشبیہ: اسے ناحق لینے والے کی تشبیہ اس شخص سے دی گئی ہے جو کھاتا ہے لیکن شکم سیر نہیں ہوتا۔
  9. سندھی کہتے ہیں: مال کے لیے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے: ایک یہ کہ اسے صحیح طریقے سے حاصل کیا جائے اور دوسرا یہ کہ اسے اس کے مناسب مصرف میں خرچ کیا جائے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک چیز مفقود ہو جائے تو وہ نقصان کا باعث بن جاتا ہے... اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس میں دونوں قیدوں کے لازم وملزوم ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی انسان کو مال صحیح مصرف میں خرچ کرنے کی توفیق تبھی ملتی ہے، جب اس نے اسے جائز طریقے سے حاصل کیا ہو۔
الملاحظة
قال السندي: فلا بد في الخبر من أمرين، أحدهما: تحصيله بوجهه، والثاني: صرفه في مصارفه، وعند انتفاء أحدهما يصير ضررًا... وقد يقال: فيه إشارة إلى الملازمة بين القَيْدَين؛ فلا يوفَّق المرء للصرف في المصارف إلا إذا أخذه بوجهه.
قال السندي: فلا بد في الخبر من أمرين
النص المقترح قال السندي: فلا بد في (الخيـــــــــر) ي بدل ب
ترجمہ: انگریزی زبان اسپینی انڈونیشیائی زبان ایغور بنگالی زبان فرانسیسی زبان ترکی زبان روسی زبان بوسنیائی زبان سنہالی ہندوستانی چینی زبان فارسی زبان ویتنامی تجالوج کردی ہاؤسا پرتگالی مليالم تلگو سواحلی تھائی پشتو آسامی السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية النيبالية ภาษาโยรูบา الدرية الصربية الرومانية المجرية الموري ภาษามาลากาซี ภาษากันนาดา الولوف الأوكرانية الجورجية المقدونية الخميرية الماراثية
ترجمہ دیکھیں
زمرے
  • . .
مزید ۔ ۔ ۔