عن المُسْتَوْرِد بن شَدَّاد رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «ما الدنيا في الآخرة إلا مِثْل ما يجعل أحدكم أُصْبُعَهُ في اليَمِّ، فلينظر بِمَ يَرْجع!».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈالے پھر(نكال كر) دیکھے کہ وه سمندر كا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے!“
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
مفہوم حدیث: اگر آپ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں تو اپنی انگلی کو سمندر میں ڈال کر اٹھائیں اور پھر دیکھیں کہ وہ کتنا پانی واپس لے کر آتی ہے؟ سمندر کے مقابلے میں، وہ اپنے ساتھ کچھ بھی واپس لے کر نہیں آئے گی۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حقیقت یہی ہے ۔ دنیا کے قلیل المدت ہونے اور اس کی لذتوں کے فانی ہونے کی آخرت کے دوام اور اس کی لذتوں اور نعمتوں کی ابدیت کے ساتھ وہی نسبت ہے، جو انگلی میں لگ جانے والے پانی کی نسبت بقیہ سمندر کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ﴾ ”سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے“۔ مخلوق کو دنیا کی جو کچھ بھی لذتیں اور نعمتیں دی گئی ہیں، ان سے بندہ ایک مختصر وقت کے لیے لطف اندوز ہوتا ہے جو مکدرات سے بھرا ہوتا ہے۔ فخر اور ریاکاری کے لیے انسان تھوڑے عرصے کے لیے ان سے زیب و زینت اختیار کرتا ہے، پھر یہ سب کچھ جلد ہی فنا ہو جاتا ہے اور محض حسرت و ندامت باقی رہ جاتی ہے: ﴿وَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۚ وَمَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ ”اور تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے وه صرف دنیوی زندگی کا سامان اور اسی کی رونق ہے، ہاں اللہ کے پاس جو ہے وه بہت ہی بہتر اور دیرپا ہے۔ کیا تم نہیں سمجھتے؟“ اللہ کے پاس جو دائمی نعمتیں اور خوشگوار زندگی، محلات اور خوشیاں ہیں وہ اپنی کیفیت و مقدار کے اعتبار سے زیادہ بہتر اور زیادہ پائیدار اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔