عن مُعاذة قالتْ: سألتُ عائشةَ رضي الله عنها فقلتُ: «مَا بَال الحَائِضِ تَقضِي الصَّوم، ولا تَقضِي الصَّلاة؟ فقالت: أَحَرُورِيةٌ أنت؟، فقلت: لَستُ بِحَرُورِيَّةٍ، ولَكنِّي أسأل، فقالت: كان يُصِيبُنَا ذلك، فَنُؤمَر بِقَضَاء الصَّوم، ولا نُؤْمَر بِقَضَاء الصَّلاَة».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
معاذۃ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ حائضہ روزوں کی قضا تو کرتی ہے، لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی؟ وہ کہنے لگیں کہ کیا تو حروریہ ہے؟ میں نے کہا کہ میں حروریہ نہیں ہوں بلکہ صرف پوچھ رہی ہوں۔ اس پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہمیں حیض آتا، تو ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا البتہ نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
معاذۃ رضی اللہ عنہا نےعائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ کس وجہ سے شارع علیہ السلا نے حائضہ عورت کے لیے ان روزوں کی قضا فرض کی، جنھیں وہ نہ رکھ سکے؛ تاہم حیض کے دوران چھوٹ جانے والی نمازوں کی قضا اس پر واجب نہیں کی، حالاں کہ دونوں ہی عبادتیں فرض ہیں۔ بلکہ نماز، روزے سے زیادہ بڑی عبادت ہے۔ قضا کے اعتبار سے ان دونوں کے مابین فرق نہ کرنا خوارج کا مذہب تھا، جس میں بے جا سختی اور تنگی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تو حروریہ ہے کہ تو بھی وہی عقیدہ رکھتی ہے، جو ان کا ہے اورتو بھی اسی طرح سختی چاہتی ہے، جیسے وہ کرتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں حروریہ نہیں ہوں، بلکہ میرا سوال علم اور راہ نمائی کے حصول کے لیے ہے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی ﷺ کے زمانے میں ہمیں حیض آتا تھا۔ ہم حیض کے دنوں میں روزے اور نماز چھوڑ دیتے تھے۔ نبی ﷺ ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیتے، لیکن نماز کی قضا کا حکم نہیں دیتے تھے۔ اگر نماز کی قضا واجب ہوتی، تو آپ ﷺ اس پر سکوت نہ فرماتے۔ گویا کہ وہ یہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ شارع علیہ السلام کے احکامات کو بجا لانے پراکتفا کرنا چاہیے اور آپ کی وضع کردہ حدود پر رک جانا ہی حکمت و دانائی ہے۔