عَنْ ‌عَائِشَةَ رضي الله عنها:
أَنَّ رَجُلًا قَعَدَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ لِي مَمْلُوكِينَ يَكْذِبُونَنِي وَيَخُونُونَنِي وَيَعْصُونَنِي، وَأَشْتُمُهُمْ وَأَضْرِبُهُمْ، فَكَيْفَ أَنَا مِنْهُمْ؟ قَالَ: «يُحْسَبُ مَا خَانُوكَ وَعَصَوْكَ وَكَذَّبُوكَ وَعِقَابُكَ إِيَّاهُمْ، فَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ بِقَدْرِ ذُنُوبِهِمْ كَانَ كَفَافًا، لَا لَكَ وَلَا عَلَيْكَ، وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ دُونَ ذُنُوبِهِمْ كَانَ فَضْلًا لَكَ، وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ فَوْقَ ذُنُوبِهِمُ اقْتُصَّ لَهُمْ مِنْكَ الْفَضْلُ»، قَالَ: فَتَنَحَّى الرَّجُلُ فَجَعَلَ يَبْكِي وَيَهْتِفُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا تَقْرَأُ كِتَابَ اللهِ: {وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا}، الْآيَةَ»، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَجِدُ لِي وَلهُمْ شَيْئًا خَيْرًا مِنْ مُفَارَقَتِهِمْ، أُشْهِدُكَ أَنَّهُمْ أَحْرَارٌ كُلُّهُمْ.

[ضعيف] - [رواه الترمذي]
المزيــد ...

عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
ایک شخص نبی اکرمﷺ کے سامنے آ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول! میرے دو غلام ہیں، جومجھ سے جھوٹ بولتے ہیں، میرے مال میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں۔ جب کہ میں انہیں گالیاں دیتا ہوں اور مارتا ہوں۔ میرا ان کا نپٹارا کیسے ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’انہوں نے تمہارے ساتھ خیانت کی ہے، تمہاری نافرمانی کی ہے اور تم سے جو جھوٹ بولا ہے، ان سب کا شمار و حساب ہو گا اور تم نے انہیں جو سزائیں دی ہیں ان کا بھی شمار و حساب ہو گا۔ اب اگر تمہاری سزائیں ان کے گناہوں کے بقدر ہوئیں تو تم اور وہ برابر برابر چھوٹ جاؤ گے۔ نہ تمہارا حق ان پر رہے گا اور نہ ان کا حق تم پر۔ اور ا گر تمہاری سزا ان کے قصور سے کم ہوئی تو تمہارا فضل و احسان ہو گا۔ اور اگر تمہاری سزا ان کے گناہوں سے زیادہ ہوئی تو تجھ سے ان کے ساتھ زیادتی کا بدلہ لیا جائے گا(یہ سن کر) وہ شخص زور زور سے روتا ہوا واپس ہو گیا، تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم کتاب اللہ نہیں پڑھتے؟ (جس میں لکھا ہے : ) "قیامت کے دن ہم درمیان میں لا رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو۔ پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا"۔ اس شخص نے کہا: قسم اللہ کی! میں اپنے اور ان کے لیے اس سے بہتر اورکوئی بات نہیں پاتا کہ ہم ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں۔ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ وہ سب آزاد ہیں۔

صحیح - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

شرح

ایک شخص اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے غلاموں کی نازیبا حرکتوں کی شکایت کرنے لگا کہ اس کے غلام بات کرتے وقت اس سے جھوٹ بولتے ہیں، امانت میں اس کی خیانت کرتے ہیں، معاملات میں اس کے ساتھ فریب کرتے ہیں اور اس کا حکم نہیں مانتے۔ جب کہ ان کو راہ راست پر لانے اور ان کی سرزنش کرنے کے لیے انہیں گالی دیتا اور مارتا پیٹتا ہے۔ اس شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ قیامت کے دن ان غلاموں کے ساتھ اس کی کیا حالت ہوگی؟ تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: انہوں نے تمہارے ساتھ خیانت کی ہے، تمہاری نافرمانی کی ہے اور تم سے جو جھوٹ بولا ہے، لہذا ان سب کا شمار و حساب ہو گا اور تم نے انہیں جو سزائیں دی ہیں ان کا بھی شمار و حساب ہو گا۔ اب اگر تمہاری سزائیں ان کے گناہوں کے بقدر ہوئیں، تو نہ تمہارا حق ان پر رہے گا اور نہ ان کا حق تم پر۔ جب کہ ا گر تمہاری سزا ان کے قصور سے کم ہوئی، تو یہ تمھارے اجر و ثواب میں اضافے کا باعث بنے گا۔ لیکن اگر تمہاری سزا ان کے گناہوں سے زیادہ ہوئی، تو تجھ سے قدر زائد لے کر ان کو دے دیا جائے گا۔ (یہ سن کر) وہ شخص زور زور سے رونے لگا۔ اس کی یہ حالت دیکھ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم کتاب اللہ نہیں پڑھتے؟ (اللہ نے فرمایا ہے ): {قیامت کے دن ہم درمیان میں لا رکھیں گے ٹھیک ٹھیک تولنے والی ترازو کو۔ پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا، تو ہم اسے لا حاضر کریں گے اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے۔" [الأنبياء: 47] یہ سن کر اس شخص نے کہا: قسم اللہ کی! میں اپنے اور ان کے لیے اس سے بہتر اور کوئی بات نہیں پاتا کہ میں ان سے جدا ہو جاؤں اور انہیں چھوڑ دوں۔ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ وہ سب اللہ کی رضا کی خاطر آزاد ہیں، فقط اس لیے کہ حساب وکتاب اور عذاب سے محفوظ رہ سکوں۔

ترجمہ: انگریزی زبان فرانسیسی زبان اسپینی ترکی زبان انڈونیشیائی زبان بوسنیائی زبان بنگالی زبان چینی زبان فارسی زبان ہندوستانی ویتنامی سنہالی ایغور کردی ہاؤسا مليالم تلگو سواحلی تمل بورمی تھائی پشتو آسامی الباني السويدية الأمهرية الهولندية الغوجاراتية الدرية
ترجمہ دیکھیں

حدیث کے کچھ فوائد

  1. عذاب الہی کے خوف سے اس صحابی نے اپنے غلاموں کو صدق دلی کے ساتھ آزاد کر دیا۔
  2. ظالم سے اس کے ظلم کے برابر یا اس سے کم قصاص (بدلہ) لینا جائز ہے، لیکن زیادتی کرنا حرام ہے۔
  3. خادموں اور کمزور وناتواں لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ترغیب۔
مزید ۔ ۔ ۔