عن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «لا تقوم السَّاعة حتى يَتَبَاهَى النَّاس في المسَاجد».
[صحيح] - [رواه أبو داود]
المزيــد ...
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت نہیں آئے گی، یہاں تک کہ لوگ مسجدوں (کو تعمیر کرنے) کے سلسلے میں ایک دوسرے پرفخر کرنے لگ جائیں گے“۔
[صحیح] - [اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
مساجد کے سلسلے میں مباہات کے معنی ہیں ان کی تعمیر، آرائش و زیبائش، بلندی اور ان کی چھتوں کی اونچائی پر ایک دوسرے پر فخر کرنا، مثلا آدمی دوسرے شخص سے کہے کہ میری مسجد تیری مسجد سے زیادہ اچھی ہے اور میری مسجد کی تعمیر تیری مسجد سے بہتر ہے وغیرہ وغیرہ۔ بسا اوقات یہ مباہات قول کی بجائے فعل (عمل) کے ذریعہ ہوتی ہے، مثلا مسجد کی آرائش و زیبائش اور اس کی عمارت کی بلندی میں مبالغہ کیا جائے؛ تاکہ دوسری سے زیادہ خوب صورت نظر آئے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ مساجد کے معاملے میں غلو نہ برتا جائے اور ان کی زیبائش نہ کی جائے؛ کیوں کہ مساجد اس مقصد کے لیے نہیں بنائی جاتیں۔ انھیں تو نماز، اللہ کے ذکر اور اس کی اطاعت سے آباد رکھنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ﴾ ”الله کی مسجدیں وہی آباد کرتا ہے، جو الله اور آخرت پر ایمان لایا اور نماز قائم کی“۔ عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: لوگوں کو بارش سے بچاؤ اور سرخ اور زرد رنگ مت کرو۔ مبادا یہ کہ تم لوگوں کو فتنے میں مبتلا کر دو۔ ”أكنَّ“ کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کے لیے ایسی مسجد بناؤ کہ اگر وہ نماز پڑھ رہے ہوں، تو بارش ہونے پر انھیں بارش سے اور سورج کی گرمی سے بچائے۔ یعنی اپنا مقصد پورا کرے۔ انس رضی اللہ نے فرمایا: لوگ مساجد پر باہم فخر تو کریں گے، لیکن انھیں آباد کم ہی کریں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: تم مساجد کی ایسے زیبائش کرو گے، جیسے یہود و نصاری نے کی۔ یہ شے یعنی مساجد کے سلسلے میں باہم فخر کرنا قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، جو اس وقت ظاہر ہوگی، جب لوگوں کے احوال میں بگاڑ، ان کے دین میں نقص اور ایمان میں کمزوری آ جائے گی۔ جب ان کے اعمال اللہ کے لیے نہیں بلکہ ریا، شہرت اور فخر و مباہات کے لیے ہوں گے۔