عن أنس بن مالك رضي الله عنه أن نفرًا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم سألوا أزواج النبي صلى الله عليه وسلم عن عمله في السر؟ فقال بعضهم: لا أتزوج النساء. وقال بعضهم: لا آكل اللحم. وقال بعضهم: لا أنام على فراش. فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فحمد الله وأثنى عليه، وقال: «ما بال أقوام قالوا كذا؟ لكني أصلي وأنام وأصوم وأفطر، وأتزوج النساء؛ فمن رغب عن سنتي فليس مني».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگ نے نبی ﷺ کی ازواجِ مطہرات سے نبی ﷺ کی تنہائی میں معمول کے بارے میں پوچھا۔ (آپ ﷺ کی عبادت کا معمول سن کر) ان میں سے کسی نے کہا کہ میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، کسی نے کہا کہ میں گوشت نہیں کھاؤں گا اور کسی نے کہا کہ میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ نبی ﷺ تک جب یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے اللہ تعالی کے حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ وہ ایسے کہنے لگے ہیں؟ میں تو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، کبھی روزہ رکھتا ہوں اور کبھی نہیں رکھتا اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں۔ جس نے میری سنت سے گریز کیا اس کا مجھ سےکوئی تعلق نہیں۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
اس بلند پایہ شریعت کی بنیاد کشادگی وآسانی اور اس بات پر ہے کہ نفوس کو زندگی کی پاکیزہ اشیاء اور جائز لذات سے لطف اندوز ہونے کا موقع دے کر خوش رکھا جائے۔ اس بات کو ناپسند کیا گیا ہے کہ نفس کو خواہ مخواہ کی تنگی و سختی اور مشقت میں مبتلا کیا جائے اور اسے اس دنیا کی بھلائیوں سے محروم رکھا جائے۔ نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں کو نیکی کی محبت اور اس کی رغبت نے اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ نبی ﷺ کی ازواج کے پاس جا کر آپ ﷺ کی تنہائی کے عمل کے بارے میں دریافت کریں جنہیں ان کے علاوہ کوئی اور نہیں جان سکتا تھا۔ جب انہیں آپ ﷺ کے عمل کا علم ہوا تو انہوں نے اسے تھوڑا سمجھا کیونکہ نیکی کے معاملے میں ان میں بہت چستی اور محنت کا جذبہ پایا جاتا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ ہماری رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا حیثیت۔ ان کی تو اللہ تعالی نے اگلی پچھلی سب خطائیں معاف کر رکھی ہیں۔ ان کے خیال میں آپ ﷺ کو بہت زیادہ عبادت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ان میں سے کسی نے یہ ارادہ کیا کہ وہ عورتوں کو چھوڑ دے گا تاکہ ہر طرف سے یکسو ہو کر عبادت کر سکے۔ کسی نے دنیاوی لذات سے کنارہ کش ہوتے ہوئے گوشت کھانے کو چھوڑ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ کسی نے یہ عزم کیا کہ وہ ساری ساری رات تہجد اور عبادت میں گزار دیا کرے گا۔ ان کی یہ باتیں نبی ﷺ تک پہنچی جو تقوی میں ان سے بڑھ کر تھے اور خشیت بھی ان سے زیادہ رکھتے تھے اور آپ ﷺ کو حالات و شرعی امور کا بھی ان سے زیادہ علم تھا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اللہ تعالی کی حمد بیان کی اور عمومی انداز میں وعظ و ارشاد فرمایا جیسا کہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو بتایا کہ آپ ﷺ ہر حق دار کو اس کا حق دیتے ہیں۔آپ ﷺ اللہ کی بھی عبادت کرتے ہیں اور زندگی کی جائز لذات سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آپ ﷺ سوتے بھی ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں۔روزہ بھی رکھ لیتے ہیں اور نہیں بھی رکھتے۔ آپ ﷺ عورتوں سے نکاح کرتے ہیں۔ جس نے آپ ﷺ کی عظیم الشان سنت سے اعراض کیا وہ آپ ﷺ کے پیروکاروں میں سے نہیں ہے بلکہ وہ بدعتی لوگوں کے راستے پر گامزن ہے۔