عن أم حبيبة بنت أبي سفيان رضي الله عنهما قالت: قلت يا رسول الله، انكح أختي ابنة أبي سفيان. قال: أو تحبين ذلك؟ فقلت: نعم؛ لست لك بمُخْلِيَةٍ، وأحَبُّ من شاركني في خير أختي. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن ذلك لا يحل لي. قالت: إنا نُحَدَّثُ أنك تريد أن تنكح بنت أبي سلمة. قال: بنت أم سلمة؟! قالت: قلت: نعم، قال: إنها لو لم تكن ربيبتي في حَجْرِي، ما حلت لي؛ إنها لابنة أخي من الرضاعة، أرضعتني وأبا سلمة ثويبةُ؛ فلا تعرضن علي بناتكن ولا أخواتكن.
قال عروة: وثويبة مولاة لأبي لهب أعتقها، فأرضعت النبي صلى الله عليه وسلم ، فلما مات أبو لهب رآه بعض أهله بشرِّ حِيبة، فقال له: ماذا لقيت؟ قال أبو لهب: لم ألق بعدكم خيرًا، غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة.
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میری بہن یعنی ابوسفیان کی بیٹی سے نکاح کر لیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند ہے؟ میں نے عرض کیا: ہاں، مجھے پسند ہے۔ اگر میں اکیلی آپ کی بیوی ہوتی تو پسند نہ کرتی۔ مجھے یہ زیادہ اچھا لگتا ہے کہ بھلائی میں (کسی اور کی بجائے) میرے ساتھ میری بہن شریک ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ میرے لیے حلال نہیں ہے۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! لوگ کہتے ہیں کہ آپ ابوسلمہ کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں؟ آپ ﷺ نے پوچھا: ام سلمہ کی بیٹی سے؟! ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر وہ میری ربیبہ نہ ہوتی (یعنی میری بیوی کی بیٹی نہ ہوتی) جب بھی میرے لیے حلال نہ ہوتی۔ وہ تو میری رضاعی بھتیجی ہے۔ مجھ کو اور ابوسلمہ، دونوں کو ثویبہ نے دودھ پلایا ہے۔ چنانچہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو میرے سامنے نکاح کے لیے پیش نہ کرو۔ راوی حدیث عروہ کا بیان ہے کہ ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی۔ ابولہب نے اس کو آزاد کر دیا تھا۔ پھر اس نے آپ ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ جب ابولہب مر گیا تو اس کے کسی عزیز نے مرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا، تو اس سے پوچھا کہ تم پر کیا گزری؟ وہ کہنے لگا: جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں، کبھی کوئی اچھائی نہیں ملی، سوائے اس کے کہ مجھے اس میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے بدلے میں کچھ پانی پلا دیا جاتا ہے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا امہات المومنین رضی اللہ عنہن میں سے ہیں۔ وہ اس حوالے سے خوش قسمت اور نیک بخت تھیں کہ ان کی شادی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہوئی تھی اور وہ اس سعادت کی سزاوار بھی تھیں۔ انہوں نے نبی ﷺ سے التماس کیا کہ آپ ﷺ ان کی بہن سے شادی کر لیں۔ نبی ﷺ کو اس پرحیرت ہوئی کہ انہوں نے کیسے اس بات کی اجازت دے دی کہ آپ ﷺ ان پر ایک سوکن کو بیاہ کر لے آئیں۔ کیوںکہ عورتیں تو اس معاملے میں بہت غیرت والی ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے تعجب بھرے انداز میں ان سے دریافت کیا کہ کیا تمہیں یہ پسند ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاں مجھے پسند ہے۔ پھر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے وہ سبب بیان کیا، جس کی وجہ سے انہیں یہ پسند تھا کہ آپ ﷺ کی شادی ان کی بہن سے ہو جائے۔ در اصل وہ جانتی تھی کہ آپ ﷺ کی ذات میں ان کے ساتھ عورتوں کا شریک رہنا ناگزیر ہے۔ وہ تنہا آپ ﷺ کی بیوی ہو نہیں سکتیں۔ تو پھر کیوں نہ اس خیر عظیم میں ان کی بہن ان کی شریک بن جائے؟ گویا انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ دو بہنوں کا ایک شخص کے نکاح میں ایک ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔ اسی وجہ سے نبی ﷺ نے انہیں بتایا کہ ان کی بہن آپ ﷺ کے لیے حلال نہیں ہے۔ پھر انہوں نے نبی ﷺ کو بتایا کہ انہیں خبر پہنچی ہے کہ آپ ﷺ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے شادی کر رہے ہیں! آپ ﷺ نے اس افواہ کے جھوٹے پن کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ام سلمہ کی بیٹی سے نکاح دو وجوہات کی بنا پر ان کے لیے جائز نہیں ہے: پہلی وجہ: یہ کہ وہ میری ربیبہ ہے۔ وہ میری پرورش میں ہے اور میں اس کے مصالح کا خیال رکھتا ہوں۔ وہ میری بیوی کی بیٹی ہے۔ دوسری وجہ: وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ مجھے اور اس کے والد یعنی ابو سلمہ کو ثویبہ نے دودھ پلایا تھا، جو ابو لہب کی آزاد کردہ باندی تھیں۔ چنانچہ میں اس کا چچا بھی ہوتا ہوں۔ اس لیے تم مجھ پر اپنی بیٹیاں اور بہنیں نکاح کے لیے پیش نہ کیا کرو۔ اس طرح کے امور میں مجھے کیا کرنا ہے، اسے میں تم سے زیادہ بہتر جانتا ہوں۔