عن ابن عباس رضي الله عنهما في قول الله تعالى : (وَقَالُوا لا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُوَاعًا وَلا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا) قال: "هذه أسماء رجال صالحين من قوم نوح، فلما هَلَكوا أَوحى الشَّيطان إلى قَومِهِم أنِ انْصِبُوا إلى مَجَالِسِهِم الَّتي كانوا يَجْلِسون فيها أنصَابًا، وسَمُّوها بأسمَائِهِم، فَفَعَلُوا، ولم تُعْبَد، حتَّى إِذَا هَلَك أُولئك ونُسِيَ العلم عُبِدت".
[صحيح] - [رواه البخاري]
المزيــد ...
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ﴿وَقَالُوا لا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُوَاعًا وَلا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ ”اور انھوں نے کہا کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ہی ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو چھوڑنا“۔ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ قوم نوح کے نیک آدمیوں کے نام ہیں۔ جب وہ فوت ہو گیے تو شیطان نے ان کے دل میں یہ بات ڈالی کہ ان کی کوئی یادگار بنائیں وہ جہاں بیٹھتے ان کی یادگار بنا دیتے اور ان کے نام پر اس کا نام رکھتے۔ سو انھوں نے ایسا کیا لیکن ان کی عبادت نہیں کی جاتی تھی یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہو گیے اور اصل بات بھی بھلا دی گئی تو ان کی عبادت شروع کر دی گئی۔
[صحیح] - [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کریمہ کی تفسیر اس طرح کرتے ہیں کہ یہ معبودان جن کا اللہ تعالیٰ نے تذکرہ کیا کہ قومِ نوح نے ان کی عبادت کو جاری رکھنے کی ایک دوسرے کو وصیت فرمائی جب کہ ان کے نبی نوح علیہ السلام نے انھیں اللہ کے ساتھ شرک کرنے سے روکا تھا۔ یہ دراصل ان کی قوم کے نیک لوگ تھے، لوگوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر ان کی شان میں غلو کیا، یہاں تک کہ ان کی تصاویر نصب کردیں، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں چل کر یہی تصاویر بت ہوگئیں اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کی جانے لگیں۔