عن أبي أمامة الباهلي رضي الله عنه قال: سمعتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «اقرؤوا القرآنَ فإنَّه يأتي يوم القيامة شَفِيعًا لأصحابه، اقرؤوا الزَّهرَاوَين البقرةَ وسورةَ آل عِمران، فإنهما تأتِيان يوم القيامة كأنهما غَمَامَتان، أو كأنهما غَيَايَتانِ، أو كأنهما فِرْقانِ من طَيْر صَوافٍّ، تُحاجَّان عن أصحابهما، اقرؤوا سورة البقرة، فإن أخذها بَرَكة، وتركها حَسْرة، ولا تستطيعها البَطَلَة».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی بن کر آئےگا۔ دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں:البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے حجت (دفاع) کریں گی۔ سورہ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے حاصل کرنا باعث برکت ہے اور اس کا ترک کرنا باعثِ حسرت ہے اور باطل پرست اس کی طاقت نہیں رکھتے“۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
قرآن پڑھا کرو اور اس کی تلاوت پر مداومت برتو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے سفارش کرے گا۔ بالخصوص سورۂ بقرہ اور سورہ آل عمران پڑھا کرو کیونکہ ان دونوں کا نام دو چمکدار یعنی دو روشنیاں رکھا گیا ہے، اُن کے منور ہونے، ہدایت کے اعتبار سے اور عظیم اجر کے اعتبار سے -گویا کہ اللہ کے نزدیک دیگر سورتوں کے تناسب سے ایسے ہی ہے جیسے قمرین کو تما م ستاروں پر- ان دونوں کے پڑھنے کا ثواب یہ ہےکہ قیامت کے دن یہ دونوں دو بادلوں کی صورت میں اپنے پڑھنے والے پر روز محشر کی گرمی سے سایہ کیے ہوئے ہوں گی یا پھر ان کے پڑھنے کا ثواب پرندوں کی دو جماعتیں جو صفوں کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ اپنے پر ملائے ہوئے کھڑے ہو ں گے جو اپنے پڑھنے والے کا دفاع کریں گی اور ان کو جہنم میں سے بچائیں گی۔ اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ وہ آنے والا خود عملِ (قرآن) کی شکل میں آئے گا جیسا کہ حدیث کے ظاہر سے پتہ چل رہا، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ وہ آنے والا خود اللہ کا کلام ہے، تو یہ درست نہیں۔ کیونکہ ’کلام‘ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے اور صفتْ ذات سے الگ نہیں ہوتی اور جس چیز کو میزان میں رکھا جائے گا وہ بندے کافعل اور عمل ہو گا جیسا کہ ﴿وَاللَّـهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ﴾ ”اور اللہ ہی ہے جس نے تمہیں اور جو تم عمل کرتے ہو ان سب کو پیدا کیا ہے“ (سورہ الصافات: 96) نبی کریم ﷺ نے سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تاکید فرمائی ہے کیونکہ اس کی تلاوت پر مداومت برتنے، اس کے معانی پر غور وفکر اور اس پر عمل کرنے میں بہت ساری برکتیں اور عظیم منافع موجود ہیں۔ اور اس سورت کو چھوڑنا، اس کی تلاوت نہ کرنا اور اس پر غور وفکر کرتے ہوئے اس پر عمل نہ کرنا قیامت کے دن حسرت و ندامت کا سبب بنے گا۔ اس سورت کا ایک بہت بڑا کمال یہ بھی ہے کہ اس کے پڑھنے والے اور اس پر غور و فکر کرتے ہوئے عمل کرنے والے کو جادو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اور (یہ بھی) کہا گیا ہے کہ جادوگر اس کے پڑھنے، اس میں تدبر کرنے، اس کے مطابق عمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اورنہ ہی ان کو اس کی توفیق ملتی ہے ۔