عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، قَالَ:
«إنَّ اللهَ كَتَبَ الحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ، ثُمَّ بَيَّنَ ذَلِكَ، فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا؛ كَتَبَهَا اللهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، وَإِنْ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا؛ كَتَبَهَا اللهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إلَى أَضْعَافٍ كَثِيرَةٍ، وَإِنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا؛ كَتَبَهَا اللهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً كَامِلَةً، وَإِنْ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا؛ كَتَبَهَا اللهُ سَيِّئَةً وَاحِدَةً».
[صحيح] - [رواه البخاري ومسلم في صحيحيهما بهذه الحروف] - [الأربعون النووية: 37]
المزيــد ...
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے رب تبارک و تعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہيں:
”بے شک اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھ دی ہیں۔ پھر اس کی وضاحت فرمادی اور کہا کہ جس شخص نے کسی نیکی کا ارادہ کیا، لیکن اسے کر نہیں سکا، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس ایک مکمل نیکی لکھ لیتا ہے۔ اور اگر اس نے اس کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل بھی کیا، تو اللہ تعالی اپنے پاس دس گنا سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ تک نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ اور اگر کسی شخص نے کسی برائی کا اردہ کیا اور پھر اسے نہیں کیا، تو اسے اللہ تعالیٰ اپنے پاس ایک مکمل نیکی لکھ لیتا ہے، اور اگر اس کا ارادہ کیا اور پھر اس کا ارتکاب کر لیا، تو اسے اللہ تعالیٰ صرف ایک برائی لکھتا ہے۔
[صحیح] - [رواه البخاري ومسلم في صحيحيهما بهذه الحروف] - [الأربعون النووية - 37]
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالی نے نیکیاں اور برائیاں مقدر کر دی اور پھر فرشتوں کو بتایا کہ ان کو کیسے لکھا جائے۔
لہذا جس نے کوئی اچھا کام کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور اسے کر نہ کر سکا، تب بھی اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ اگر اسے کر لیا، تو اس کے لیے دس سے سات سو، بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ دراصل نیکی میں یہ اضافہ دل کے اندر موجود اخلاص اور اس کام سے دوسروں کو ہونے والے فائدے کے مطابق ہوتا ہے۔
اس کے برخلاف جس نے کوئی برا کام کرنے کا پختہ ارادہ کیا اور پھر اسے اللہ کے لیے چھوڑ دیا، اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ لیکن اگر اسے دلچسپی نہ ہو نے کی وجہ سے چھوڑا اور اس کے اسباب پر بھی ہاتھ نہ لگایا، تو کچھ نہیں لکھا جاتا۔ جب کہ اسے قدرت نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑا، تو اس کی نیت کو اس کے خلاف لکھا جاتا ہے۔ اور اگر اسے کر لیا تو اس کے کھاتے میں ایک گناہ لکھا جاتا ہے۔