«إِنَّكَ لَتَصُومُ الدَّهْرَ، وَتَقُومُ اللَّيْلَ؟»، فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «إِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ لَهُ العَيْنُ، وَنَفِهَتْ لَهُ النَّفْسُ، لاَ صَامَ مَنْ صَامَ الدَّهْرَ، صَوْمُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ»، قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: «فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلاَ يَفِرُّ إِذَا لاَقَى».
[صحيح] - [متفق عليه] - [صحيح البخاري: 1979]
المزيــد ...
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
”کیا تم دن میں ہمیشہ روزہ رکھتے ہو اور رات میں ہمیشہ قیام کرتے ہو؟" میں نے عرض کیا: جی ہاں! تو فرمایا: "ایسا کرنے سے آنکھ تھک جائے گی اور جسم کمزور ہو جائے گا۔ جس نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے دراصل روزہ ہی نہیں رکھا۔ مہینے کے تین روزے سال بھر روزہ رکھنے کی طرح ہیں" ۔ میں نے عرض کیا: میرے اندر اس سے زیادہ روزہ رکھنے کی طاقت ہے۔ آپ نے فرمایا: "تب داود علیہ السلام کا روزہ رکھو۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن بغیر روزے کے رہتے تھے اور دشمن سے مقابلے کے وقت بھاگتے نہیں تھے"۔
[صحیح] - [متفق علیہ] - [صحيح البخاري - 1979]
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اطلاع ملی کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سال بھر لگاتار روزہ رکھتے ہیں اور ایک دن بھی ناغہ نہیں کرتے۔ اسی طرح رات رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں اور سوتے ہی نہیں ہيں۔ لہذا انھیں اس سے منع کیا اور فرمایا: روزہ بھی رکھو اور ناغہ بھی کرو۔ رات میں قیام بھی کرو اور سو بھی لیا کرو۔ ان کو لگاتار روزہ رکھنے اور رات رات بھر قیام کرنے سے منع کیا اور فرمایا: ایسا کروگے، تو تمھاری آنکھ کمزور ہو جائے گی اور اندر دھنس جائے گی۔ تمھارا جسم کمزور ہوجائے گا اور تھک جائے گا۔ جس نے سال بھر روزہ رکھا، اس نے روزہ ہی نہیں رکھا۔ کیوں کہ نہی کی مخالفت کی وجہ سے اجر وثواب سے محروم رہا اور کھایا پیا بھی نہيں۔ اس کے بعد ان کی رہ نمائی مہینے میں تین دن روزہ رکھنے کی جانب فرمائی کہ یہ سال بھر روزہ رکھنے کی طرح ہے۔ کیوں کہ ایک ایک دن کا ثواب دس دس دن کے برابر ملے گا، جو کہ نیکیوں میں اضافے کی قلیل ترین مقدار ہے۔ آپ کی اس رہنمائی کے بعد عبداللہ نے عرض کیا: میرے اندر اس سے زیادہ کرنے کی طاقت ہے۔ جواب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر ایسا ہے، تو تم داود علیہ السلام کا روزہ رکھو، جو سب سے افضل روزہ ہے۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے اور دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت بھاگتے نہیں تھے، کیوں کہ ان کے روزہ رکھنے کا طریقہ ان کے جسم کو کمزور نہيں ہونے دیتا تھا۔