عن معاوية رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «المُؤَذِّنونَ أطولُ النّاسِ أعنَاقاً يَومَ القِيَامَةِ».
[صحيح] - [رواه مسلم]
المزيــد ...
معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن اذان دینے والوں کی گردنیں تمام لوگوں سے لمبی ہوں گی۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا کہ اذان دینے والوں کی گردنیں سب سے لمبی ہوں گی۔ ’أعناق‘ عُنق کی جمع ہے۔علمائے سلف و خلف کا اس کے معنی میں اختلاف ہے۔ ایک قول کی رو سے اس سے حقیقی لمبائی مراد ہے۔ جب روزِ قیامت لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے تو ان کی گردنیں لمبی ہوں گی تاکہ ان تک وہ پریشانی اور پسینہ نہ پہنچ پائے۔ ایک دوسرے قول کی رو سے اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ کی رحمت کی طرف سب سے زیادہ اوپر ہو ہو کر دیکھ رہے ہوں گے کیوں کہ جھانک کر دیکھنے والا چیز کو دیکھنے کے لیے گردن کو لمبا کرتا ہے۔ چنانچہ گردن لمبی ہونے سے مراد اس ثواب کی کثرت ہے جسے وہ دیکھیں گے۔ ایک اور قول کی رو سے اس کا معنی یہ ہے کہ وہ آقا اور سردار ہوں گے۔ اہلِ عرب، سرداروں کو لمبی گردن کے ساتھ موصوف کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا معنی ہے ان کے پیرو کار بہت زیادہ ہوں گے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر اقوال منقول ہیں۔ ”قیامت ے دن“ جب اللہ تعالی لوگوں کو اٹھائے گا تو اذان دینے والوں کی ایک ایسی امتیازی شان ہو گی جو کسی اور کی نہیں ہو گی اور وہ یہ کہ ان کی گردنیں سب سے لمبی ہوں گی اور ان کے اظہار فضل و شرف کے لیے وہ اس سے پہچانے جائیں گے کیونکہ وہ اذان دیا کرتے تھے اور اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتے تھے، اس کی توحید اور اس کے رسول ﷺ کی رسالت کا اعلان کرتے تھے، نماز اور فلاح کی طرف دعوت دیا کرتے تھے۔ وہ بلند جگہوں سے ان کا اعلان کرتے تھے اس لیے ان کے عمل کی جزا بھی ان کے عمل کی جنس سے ہی ہو گی کہ ان کے سر بلند ہوں گے اور ان کے چہرے اونچے ہوں گے۔ ایسا روزِ قیامت ان کی گردنیں لمبی کردینے سے ہو گا۔ چنانچہ انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ بھی مؤذن بنے اگرچہ کسی مسجد میں نہ بھی ہو تو تب بھی اسے اذان دینے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔