عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إنَّ اللهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعاً يَنْتَزعهُ مِنَ النَّاسِ، وَلكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِماً، اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُوساً جُهَّالاً، فَسُئِلُوا فَأفْتوا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأضَلُّوا».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عبدالله بن عمرو بن العاص - رضی الله عنہما - سے روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالی علم کو بندوں سے چھین کر نہیں اٹھائے گا بلکہ وہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا یہاں تک کہ جب اللہ کوئی عالم باقی نہیں چھوڑے گا تو (اس وقت) لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے۔ ان سے جب کوئی مسئلہ دریافت کیا جائے گا تو وہ علم کے بغیر فتوی دیں گے اور یوں خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے“۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
عبداللہ بن عمرو - رضی الله عنہما - سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "اللہ علم کو چھین کر نہیں اٹھائے گا۔" اس سے کتاب و سنت اور اس سے متعلقہ علوم مراد ہیں۔ ”انتزاعاً ينتزعه من الناس“ یعنی لوگوں سے علم کو یوں نہیں ختم کرے گا کہ ان کے درمیان سے علم کو آسمان پر اٹھا لے بلکہ علم کو علماء کو موت دے کر اور ان کی روحوں کو قبض کرکے اٹھائے گا۔یہاں تک کہ جب اللہ کسی بھی عالم کو نہیں چھوڑے گا یعنی ہر عالم کی روح قبض کر لے گا تو لوگ ایسے افراد کو اپنا خلیفہ، قاضی، مفتی، امام اور شیخ بنا لیں گے جو جاہل ہوں گے۔ ”جُھّال“ دراصل جاہل جمع ہے۔ ایسے لوگوں سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جائے گا تو وہ بغیر کسی علم کے فتوی دیں گے اور بلا علم فیصلہ کر دیا کریں گے اور یوں خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ اس طرح سے جہالت عام ہو جائے گی۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ علم عنقریب اٹھا لیا جائے گا اور زمین میں ایک عالم بھی ایسا نہیں رہے گا جو لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف رہنمائی کرے۔ اس طرح سے امت پستی کا شکار ہوجائے گی اور گمراہی میں پڑ جائے گی۔