عن عاصم قال: سألتُ أنساً رضي الله عنه عن القُنُوت، قال: قبل الركوع، فقلت: إن فلاناً يزعم أنك قلت بعد الركوع؟ فقال: كَذَبَ، ثم حَدَّثَنَا، عن النبي صلى الله عليه وسلم : «أنه قنت شهراً بعد الركوع، يدعو على أحياء من بني سليم»، قال: «بعث أربعين -أو سبعين يشك فيه- من القراء إلى أناس من المشركين»، فعرض لهم هؤلاء فقتلوهم، وكان بينهم وبين النبي صلى الله عليه وسلم عهد، «فما رأيته وجد على أحد ما وجد عليهم».
[صحيح] - [متفق عليه]
المزيــد ...
عاصم الاحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے دعائے قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے ہونی چاہیے، میں نے عرض کیا کہ فلاں شخص کا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے رکوع کے بعد کہا تھا۔ انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ انھوں نے جھوٹ کہا ہے۔ پھر انھوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد قنوتِ نازلہ پڑھی۔ جس میں آپ ﷺ بنو سلیم کے قبیلوں کے حق میں بددعا کر رہے تھے۔ انھوں نے بیان کیا کہ:آپ ﷺ نے چالیس یا ستر، راوی کو تعداد میں شک ہے قرآن کے عالم صحابہ کی ایک جماعت مشرکین کی طرف روانہ کیا، لیکن بنو سلیم کے لوگ ان کے آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا۔ حالاں کہ نبی کریم ﷺ سے ان کا معاہدہ تھا۔ ( لیکن انھوں نے دغا دیا)۔ میں نے آپ ﷺ کو کسی معاملہ پر اتنا رنجیدہ اور غمگین نہیں دیکھا جتنا ان صحابہ کی شہادت پر آپ رنجیدہ تھے۔
[صحیح] - [متفق علیہ]
اس حدیث میں قنوت نازلہ کی مشروعیت بیان کی جا رہی ہے۔ اور یہ کہ یہ رکوع سے اٹھنے کے بعد پڑھی جائے گی، کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا جب بنو سلیم نے اپنے معاہدہ کو جو ان کے اور مسلمانوں کے مابین طے پایا تھا، توڑتے ہوئے ستر یا چالیس قراء صحابہ کو شہید کردیا، جنھیں رسول اللہ ﷺ نے مشرکیں کی طرف (دعوت وتبلیغ کی غرض سے) بھیجا تھا۔ آپ ﷺ نے ایک مہینہ تک رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھی جس میں ان پر بددعا کرتے رہے۔