عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه مرفوعاً: «يُوضَعُ الصِّراط بين ظَهْرَي جهنم، عليه حَسَكٌ كحَسَك السَّعْدان، ثم يستجيز الناس، فناجٍ مُسَلَّم، ومَجْدوح به ثم ناجٍ، ومحتبَس به فمنكوسٌ فيها، فإذا فرغ اللهُ عز وجل من القضاءِ بين العباد، يفقد المؤمنون رجالًا كانوا معهم في الدنيا يُصلُّون بصلاتهم، ويُزَكُّون بزكاتهم، ويصومون صيامهم، ويحجُّون حجَّهم ويغزون غزوَهم فيقولون: أي ربنا عبادٌ من عبادك كانوا معنا في الدنيا يُصلُّون صلاتنا، ويُزَكُّون زكاتنا، ويصومون صيامنا، ويحجُّون حجَّنا، ويغزون غزوَنا لا نراهم، فيقول: اذهبوا إلى النار فمن وجدتم فيها منهم فأخرجوه، قال: فيجدونهم قد أخذتهم النارُ على قَدْر أعمالهم، فمنهم مَن أخذته إلى قدميه، ومنهم مَن أخذته إلى نصف ساقيه، ومنهم مَن أخذته إلى رُكبتيه، ومنهم من أخذته إلى ثَدْيَيْه، ومنهم من أزرته، ومنهم من أخذته إلى عنقه، ولم تَغْشَ الوجوهَ، فيستخرجونهم منها فيُطرحون في ماء الحياة»، قيل: يا رسول الله وما الحياة؟ قال: «غسل أهل الجنة فينبتون نباتَ الزرعة» وقال مرة: «فيه كما تنبت الزرعة في غُثاء السَّيل، ثم يشفع الأنبياء في كلِّ من كان يشهد أن لا إله إلا الله مخلِصًا فيخرجونهم منها» قال: «ثم يتحنَّنُ اللهُ برحمته على من فيها، فما يترك فيها عبدًا في قلبه مثقالُ حبَّة من إيمان إلا أخرجه منها».
[صحيح] - [رواه ابن ماجه مختصرًا وأحمد]
المزيــد ...
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پل صراط کو جہنم کے اوپر رکھا جائےگا۔ جس پر سعدان کے خاردار پودے کی طرح کانٹے ہوں گے۔ پھر لوگوں کو اس کے اوپر سے گزارا جائے گا تو کچھ لوگ صحیح سلامت گزر جائیں گے، کچھ زخمی ہو کر بچ نکلیں گے، کچھ ان سے الجھ کر جہنم میں گرپڑیں گے۔ جب اللہ تعالی اپنے بندوں کے مابین فیصلے سے فارغ ہو جائے گا تو مسلمانوں کو بہت سے ایسے لوگ نہیں ملیں گے جو دنیا میں ان کے ساتھ ہوتے تھے اور وہ انہی کی طرح نماز پڑھتے، زکوۃ دیتے، روزے رکھتے، حج کرتے اور جہاد کرتے تھے۔ تو وہ کہيں گے: اے ہمارے رب! تیرے کچھ بندے جو دنیا میں ہمارے ساتھ ہوتے تھے اور جو ہماری طرح نماز پڑھتے، زکوۃ دیتے، روزے رکھتے، حج کرتےاور جہاد کرتے تھے، وہ ہمیں نظر نہیں آ رہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جہنم کی طرف جاؤ اور ان میں سے جتنے لوگ جہنم میں ملیں، انہیں اس میں سے نکال لو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ انہیں اس حالت ميں پائيں گے کہ جہنم کی آگ نے انہيں ان کے اعمال کے بقدر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، کسی کو قدموں تک، کسی کو نصف پنڈلی تک، کسی کو گھٹنوں تک، کسی کو چھاتیوں تک، کسی کو تہبند تک اور کسی کو گردنوں تک، لیکن چہروں پر اس کی لپٹ نہیں پہنچی ہوگی۔ وہ انہیں دوزخ میں سے نکال لیں گے اور پھر انہیں آب حیات میں ڈال دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! آب حیات کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ جنتیوں کا غسل ہے۔ پھر وہ ایسے نکلیں گے جیسے کھیتی نکلتی ہے۔ ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اس سے ایسے نکلیں گے جیسے سیلاب کے ساتھ آئے کوڑے پر خود رو گھاس اگ آتی ہے۔ پھر انبیاء کرام ہر اس شخص کی شفاعت کریں گے جو اخلاص کے ساتھ یہ گواہی دیتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور وہ انہيں جہنم سے نکلوا لیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اللہ اہل جہنم پر اپنی خصوصی رحمت فرمائے گا اور اس ميں کوئی ايک بندہ بھی ایسا نہيں چھوڑے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا مگر اسے اس سے باہر نکال لے گا۔
[صحیح] - [اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
قیامت کےدن اللہ عزوجل پل صراط کو جہنم کے وسطی حصہ پر رکھ دے گا۔ پل پر سخت کانٹے ہوں گے۔ پھر لوگوں کو اس پر سے گزرنے کا حکم دیا جائے گا۔ ان میں سے کچھ تو نجات پا جائیں گے اور صحیح سلامت گزر جائیں گے، آگ ان کو نہیں چھوئے گی۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو زخمی تو ہوں گے تاہم بحفاظت چھٹکارا پا جائیں گے۔ اور بعض جہنم کے اندر جا گریں گے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا اور جنتیوں کو جنت اور دوزخیوں کو دوزخ میں بھیج دیا جائے گا تو جنتی مومنوں کو کچھ ایسے لوگ نہیں ملیں گے جو دنیا میں ان کے ساتھ تھے اور انہی کی طرح نماز پڑھتے، زکوۃ دیتے، روزے رکھتے، حج کرتے اور ان کے ساتھ جہاد کرتے تھے۔ تووہ لوگ اللہ عزوجل سے کہیں گے: ہمیں یہ لوگ اپنے ساتھ جنت میں دکھائی نہیں دے رہےحالانکہ وہ دنیا میں ہمارے ساتھ نماز پڑھتے، زکوۃ دیتے ، روزے رکھتے، حج کرتے اور جہاد کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: جہنم کی طرف جاؤ اور اگر ان میں سے کوئی تمھیںجہنم میں ملے، تو اسے اس میں سے نکال لو۔ چنانچہ (جب وہ وہاں جائیں گے تو) انہیں اس حال میں پائیں گے کہ انہیں جہنم کی آگ نے ان کے اعمال کے بقدر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کچھ کے قدموں تک آگ آ رہی ہو گی، کچھ کی پنڈلیوں کے نصف تک، کچھ کے گھٹنوں تک، کچھ کے درمیان تک، کچھ کے پستانوں تک اور کچھ کی گردن تک آگ پہنچی ہو گی۔ تاہم آگ ان کے چہروں تک نہ آئی ہو گی۔ وہ ان کے بارے میں شفاعت کریں گے تو ان کو جہنم سے نکال کر آب حیات میں ڈال دیا جائے گا۔ یہ ایسا پانی ہے جو اپنے اندر غوطہ لگانے والے کو زندہ کردیتا ہے۔ چنانچہ وہ اس سے ایسے نکلیں گے جیسے سیلاب کے بہاو کی جگہ پر بیج اگ آتا ہے ہے۔ پھر انبیاء کرام ہر اس شخص کے بارے میں شفاعت کر یں گے جو اخلاص کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور وہ انہیں جہنم سے نکلوا لیں گے۔ پھر اللہ جہنم والوں پر رحمت وشفقت کرے گا اور اس میں سے کسی بھی ایسے شخص کو نکالے بغیر نہیں چھوڑے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا۔