عن الزُّبير بن العوام رضي الله عنه أنَّه كانت عنده أمُّ كُلثوم بنتُ عقبة، فقالت له وهي حاملٌ: طَيِّب نفسي بتطليقة، فطلَّقها تطليقةً، ثم خرجَ إلى الصلاة، فرجع وقد وضعت، فقال: ما لها؟ خَدَعتني، خَدَعها اللهُ، ثم أتى النبيَّ صلى الله عليه وسلم ، فقال: «سَبَقَ الكتابُ أَجَلَه، اخطِبها إلى نفسِها».
[صحيح] - [رواه ابن ماجه]
المزيــد ...
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی زوجیت میں ام کلثوم بنت عقبہ تھیں، انہوں نے حمل کی حالت میں زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا مجھے ایک طلاق دے کر میرا دل خوش کر دو، لہٰذا انہوں نے ایک طلاق دے دی، پھر وہ نماز کے لیے نکلے جب واپس آئے تو وہ بچہ جن چکی تھیں تو زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا اسے کیا ہو گیا؟ اس نے مجھ سے دھوکا دیا، اللہ اس سے دھوکا دے، پھر وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا ”کتاب کی میعاد گزر گئی (اب رجوع کا اختیار نہیں رہا) لیکن اسے نکاح کا پیغام دے دو“۔
[صحیح] - [اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔]
زبیر بن عوام نے امّ کلثوم بنت عقبہ کے ساتھ شادی کی تھی، بیوی نے حاملہ ہونے کی حالت میں ان سے کہا ”طيِّب نفسي بتطليقة“ یعنی مجھے ایک طلاق دے کر خوش کردو۔ ظاہری مفہوم یہ ہے کہ وہ شوہر کو پسند نہیں کرتی تھیں اور ان کے نکاح سے ایسے نکلنا چاہ رہی تھی کہ وہ دوبارہ ان سے رجوع نہ کرسکے، لیکن اس نے بچے کی ولادت قریب ہونے کی وجہ سے شوہر سے ایک طلاق کا مطالبہ کیا، وہ جانتی تھی کہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہوتی ہے۔ اسی لیے انہوں نے ایک طلاق دی اور نماز کے لئے نکل گیے، واپس لوٹے تو بیوی بچہ جن چکی تھی۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا ”ما لها؟ خَدَعتني، خَدَعها اللهُ“ خداع (دھوکا دینا) اللہ تعالیٰ کی صفاتِ فعلیہ خبریہ میں سے ہے۔ لیکن علی الاطلاق اس سے اللہ تعالیٰ کو متصف نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہ مقابلۃً اللہ کی صفت بنتی ہے، چنانچہ اس طرح کہا جائے جو اللہ کو دھوکا دیتا ہے اللہ اسے دھوکا دیتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا منافقین کو دھوکا دینا اور مؤمنین کو دھوکا دینے والوں کو دھوکا دینا وغیرہ۔ اس کی تاویل یوں کرنا درست نہیں کہ حضرت زبیر کی مُراد یہ تھی کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بدلہ ہے دھوکے کی شکل میں۔ بلکہ دوسری صفات کی طرح اس صفت کو بھی بغیر رد و بدل، تعطیل اور بغیر تکییف و تمثیل کے اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا واجب ہے۔ پھر زبیر رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پاس آئے اور وہ سارا واقعہ بتایا جو ان کے ان کی بیوی کے درمیان گزرا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا ”سَبَقَ الكتابُ أَجَلَه“ یعنی مقررہ عدت امید سے پہلے پوری ہو چکی اور طلاق واقع ہو گئی۔ پھر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ”اخطِبها إلى نفسِها“ یعنی تم بھی دوسرے لوگوں کی طرح ان کی طرف نکاح کا پیغام بھیجو، عدت گزرنے کی وجہ سے تمہیں ان کی ذات پر کوئی حق نہیں رہا۔