"أكبر الكبائر: الإشراك بالله، والأمن من مَكْرِ الله، والقُنُوطُ من رحمة الله، واليَأْسُ من رَوْحِ الله".
[إسناده صحيح] - [رواه عبد الرزاق]
المزيــد ...
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سب سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، اللہ کی رحمت ونعمت سے مایوس ہوجانا، اس کی پوشیدہ تدبیر سے بے خوف ہو جانا“۔
اس حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے ان گناہوں کا ذکر کیا جو کبیرہ گناہ شمار ہوتے ہیں اوروہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت یا عبودیت میں اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، اس کو پہلے ذکر کیا اس لئے کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہونا،اس لئے کہ یہ اللہ کے بارے میں بدگمانی ہے اور اس کی وسیع رحمت سے نا واقفیت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے بندے کو نعمتوں کے ذریعہ ڈھیل دینے اور حالت غفلت میں اچانک پکڑلینے سے بے خوف رہنا۔ اس حدیث سے مُراد یہ نہیں کہ کبیرہ گناہ صرف یہی ہیں۔ اس لئے کہ کبیرہ گناہ بہت ہیں۔ تاہم یہاں ان میں سے سب سے بڑے گناہوں کا ذکر کیا ہے۔
جواز وصف الله -تعالى- بالمكر في مقابلة الماكرين، وهذه صفة كمال، والمذموم هو المكر بمن لا يستحق أن يُمكر به.نص الحديث لا يساعد على ذلك، حيث إنه ليس وصفًا وإنما هو إضافة (مكر الله). وقوه (في مقابلة) أين المقابلة في متن الحديث؟؟
إثبات صفة الرحمة لله -تعالى- على وجه يليق بجلاله.هذه من لفظ أثر ابن مسعود، فإن اعتُمد حديث ابن عباس تُحذف.
جواز وصف الله -تعالى- بالمكر في مقابلة الماكرين، وهذه صفة كمال، والمذموم هو المكر بمن لا يستحق أن يُمكر به.حذف
انقسام الذنوب إلى كبائر وصغائر.والكبائر إلى درجات بعضها أكبر من بعض
تحريم الأمن من مكر الله -سبحانه- واليأس من رحمته، وأنهما من أكبر الكبائر.الحديث فيه/: القنوط من رحمة الله واليأس من روح الله
جواز وصف الله -تعالى- بالمكر في مقابلة الماكرين، وهذه صفة كمال، والمذموم هو المكر بمن لا يستحق أن يُمكر به.تحذف وليست مذكورة في الحديث مباشرة
إثبات صفة الرحمة لله -تعالى- على وجه يليق بجلاله.تحذف
أن الواجب على العبد أن يكون بين الخوف والرجاء، فإذا خاف لا ييأس، وإذا رجا لا يأمن.فإذا خاف لا ييأس، وإذا رجا لا يأمن. كيف وإذا رجا لا يأمن؟؟؟؟ وإذا خاف لا ييأس؟؟؟؟