عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، مَنْ أحقُّ الناس بِحُسن صَحَابَتِي؟ قال: «أمك» قال: ثم مَنْ ؟ قال: «أمك»، قال: ثم مَنْ؟ قال: «أمك»، قال: ثم مَنْ؟ قال: «أبوك». متفق عليه. وفي رواية: يا رسول الله، مَنْ أحقُّ بحُسْنِ الصُّحْبَةِ؟ قال: «أمك، ثم أمك، ثم أمك، ثم أباك، ثم أدْنَاك أدْنَاك».
[صحيح] - [الرواية الأولى: متفق عليها.
الرواية الثانية: رواها مسلم]
المزيــد ...
ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے حُسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تمہارا باپ ہے۔ (متفق علیہ) ایک دیگر روایت میں ہے کہ (ایک آدمی نے عرض کیا) اے اللہ کے رسول ! سب سے زیادہ میرے حُسنِ سلوک کا کون حقدار ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیری ماں۔ اِس کے بعد تیرے باپ کا پھر جو تیرے قریب ہو پھر جو تیرے قریب ہو۔
[صحیح] - [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ والدین میں سے ہر ایک حُسنِ مصاحبت اور ان کے سارے کاموں کی مکمل دیکھ بھال کے حقدار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾ ”دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا“۔ تاہم ماں کا حق باپ پر کئی گناہ زیادہ ہے۔ اس لیے کہ آپ ﷺ نے ماں کے حق کو تین مرتبہ کی تاکید کے ساتھ خوب مؤکد کرنے کے بعد باپ کا حق ذکر کیا ہے۔ ماں کا درجہ باپ سے بڑھ گیا باوجودیکہ بچے کی پرورش میں دونوں والدین شریک ہوتے ہیں۔ والد اپنے مال اور نگرانی کے ساتھ اور والدہ کھانے پینے اور پہننے اور بچھانے میں خدمت کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔الخ، اس لیے کہ ماں بچے کے لیے وہ تکلیفیں برداشت کرتی ہیں جو باپ نہیں کرتا، ماں نو ماہ تک اسے پیٹ میں لے کر حمل کی حالت میں تکلیف در تکلیف اور کمزوری در کمزوری برداشت کرتی ہے، پھر اسے جننے کی تکلیف برداشت کرتی ہے، وہ تکلیف جو برداشت کرتی ہے اس سے ایسا لگتا ہے جیسے موت اس کو اچک لے۔ اسی طرح پھر دو سال تک اسے دودھ پلاتی ہے، اس کی راحت کے لیے راتوں کو جاگتی ہے، اس کی بہتری کے کام کرتی ہے اگرچہ خود کئی ساری تکلیفیں سہ لے۔ اسی وجہ سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا﴾ ”اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے“۔ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ احسان کرنے کی وصیت کی ہے اور ماں کی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صرف انہی اسباب کی طرف اشارہ فرمایا جو ماں تکلیفیں برداشت کرتی ہیں۔ والدین کے ساتھ حُسنِ مصاحبت کا مظہر یہ بھی ہے کہ ان کے کھانے پینے، رہنے سہنے، اوڑھنے بچھانے اور دیگر معاشی ضروریات کے لیے ان پر خرچ کرنا۔ اگر وہ محتاج ہیں بلکہ اگر وہ کم یا درمیانے درجے کی زندگی گزار رہے ہوں اور تم خوشحال و خوشگوار زندگی گزار رہے ہو تو انہیں اپنے درجے تک لے آنا یا اس سے بھی اچھا کرنا۔ یہ صحبت میں احسان کا تقاضا ہے۔ یاد کیجیے حکومت ملنے اور تخت نشینی کے بعد یوسف علیہ السلام نے جو کچھ اپنے والدین کے ساتھ کیا کہ انہیں دیہات سے لے آئے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے متعلق بلکہ ان کے تمام امور کو شامل جامع حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول میں ذکر فرما دیا ہے: ﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا، وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾ ”اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اُف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا، اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے“۔ ان سے بے ہودہ زبان کے استعمال سے بچو اور ہر طرح کی تکلیف دینے سے بچو، اپنی گفتگو کو ان کے سامنے نرم کردو، ان کے لیے اپنے بازؤوں کو پست کردو، ان کی اطاعت میں اپنے آپ کوجھکا دو، ان کے لیے دعا مانگتے رہو، اپنے دل کو ان کے ساتھ مخلص کرلو اور کہو اے اللہ ان پر اسی طرح رحم فرما جس طرح سے کہ انہوں نے بچپن میں میری تربیت کی تھی اور وحی الہی میں موجود اشارے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نیز حدیث کی منطقیت کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے ماں کا زیادہ خیال رکھنا نہ بھولو۔